باسمہٖ تعالیٰ
جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں منظور شدہ
قراردادیں
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) ڈاکٹر نریندر دھابولکر کا قتل اور پولس کی نااہلی:
20؍اگست 2013ء کو پونے میں ڈاکٹر نریندر دھابولکر کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ آنجہانی نے بھارتی سماج میں صدیوں سے جاری توہمات کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ وہ ’’اندھ وِشواس نِرمولن سمیتی‘‘ کے صدر تھے، جس کے ذریعے انہوں نے ڈھونگی سادھوؤں و باباؤں اور ان کے ماننے والوں کو زبردست چیلنج کیا تھا۔ بھارتیہ عوام کو اندھ وِشواس میں پھنسائے رکھنے والی نام نہاد دھارمک اور سیاسی و سماجی تنظیموں کی طرف سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔ بالآخر انہیں قتل کردیا گیا۔ اس سانحہ کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں، ہماری پولس ان کی حفاظت نہیں کرسکی اور دو ماہ گزرنے کے بعد آج تک ان کے قاتلوں کو پکڑا نہیں جاسکا۔
جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کا یہ اجلاس آنجہانی ڈاکٹر نریندر دھابولکر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے اور انہوں نے توہمات کے خلاف جو جدوجہد کی تھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کی اہل خانہ کے ساتھ اظہارِ ہمدردی و یگانگت کرتا ہے۔ یہ اجلاس حکومت مہاراشٹر سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈاکٹر نریندر دھابولکر کے قاتلوں کو اور ان کے قتل کی سازش میں ملوث لوگوں کو جلد از جلد گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے نیز ان کے لواحقین کو خاطر خواہ معاوضہ بھی ادا کیا جائے۔
(2) بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں :
دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں ہو پارہا ہے۔ چند سالوں قبل آنجہانی ہیمنت کرکرے نے فسطائی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ دہشت گردوں کے چہرے سے پردہ اُٹھایا تھا۔ اس کے بعد اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے سوامی اسیمانند نے اعتراف کیا تھا کہ مالیگاؤں، حیدرآباد، اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے بم دھماکے ہندوتووادیوں نے ہی کیے تھے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر بم سازی کے دوران بم پھٹ جانے سے کئی ہندوتووادی دہشت گرد مارے گئے۔ حال ہی میں پونے جرمن بیکری دھماکے میں ذیلی عدالت کے ذریعے سزائے موت سنائے جانے والے ملزم کے بارے میں معروف صحافی اشیس کھیتان نے اسٹنگ آپریشن کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ ATS کے ذریعے جھوٹی گواہیاں عدالت میں پیش کی گئیں جن کی بنیاد پر اسے سزائے موت سنائی گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جب کہ مرکزی وزیر داخلہ شری سشیل کمار شندے نے ریاستی حکومتوں کو یہ سرکلر جاری کیا کہ بے قصور نوجوانوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ یہ اجلاسِ شوریٰ حکومت مہاراشٹر سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جلدازجلد بے قصور مسلمانوں کو رہا کرے ورنہ آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی چناؤ میں اسے اس ظلم کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ یہ اجلاس بھارتیہ عدلیہ کو امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے کہ وہ اس متعصبانہ ماحول سے بالکل آزاد ہے جس میں ہماری حکومتیں پولس اور انتظامیہ ملوث ہے۔ یہ اجلاس عدلیہ سے گزارش کرتا ہے کہ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی جرم کو دو مجرموں نے انجام دیا ہو۔ ایک مجرم سراسر بے قصور ہے اور دوسرے مجرم کے خلاف بے شمار ثبوت فراہم کیے جاچکے ہیں، عدلیہ ان بے قصور مسلمانوں کو رہا کرنے کا فیصلہ فوری طور پر کرے۔
(3) انسداد فرقہ وارانہ فساد بل :
UPA سرکار نے اقتدار پر آنے سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں فسادات کی موثر روک تھام کے لیے ایک بل پیش کرے گی، لیکن افسوس کہ حکومت نے پہلی میقات ضائع کردی اور دوسری میقات پر انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل تیار کیا لیکن اسے ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرسکی۔ مختلف عذر کے تحت بل کی پیش کشی ملتوی ہوتی رہی اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ چل پڑا۔ مظفر نگر کے فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کے کیمپوں میں جاکر UPA چیئرپرسن اور وزیراعظم ہند نے مظلوموں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی۔ اب بعض حلقوں کی طرف سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق اس بل کو پارلیمنٹ میں پاس کرائے۔ اور اپنے وعدے کو پورا کریں تاکہ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو اور ملک فرقہ وارانہ فسادات کی لعنت سے نجات پائے اور دنیا میں نیک نامی حاصل کرے۔
(4) عورتوں پر مظالم اور ان کی عصمت دری :
ہمارے ملک میں خاص کر ریاست مہاراشٹر میں عورتوں پر مظالم کا سلسلہ کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔ صنف نازک گھریلو ظلم سے لے کر سماجی ظلم کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ عصمت دری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب ایسے شرمناک واقعات رونما ہوتے ہیں تب ہر طرف احتجاج ہوتا ہے اور حکومت خاطیوں کو کڑی سزا دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ پھر اس طرح کے مقدمات التواء کا شکار ہوتے ہیں اور عوام بھی دھیرے دھیرے بھول جاتی ہے۔
یہ اجلاس ملک کے ہر باشعور شہری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان واقعات کے تدارک کے لیے آگے بڑھیں اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے حیائی پر روک لگائیں نیز ہماری نئی نسل کو اخلاقی تعلیم سے مزین کریں۔ سماج میں اخلاقی اقدار کو فروغ کرنے پر توجہ دیں۔
حکومت اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی نسل کی اصلاح پر توجہ دیں اور زانیوں کے لیے سزائے موت کے قوانین نافذ کرے۔
(5) ریاست میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور رشوت خوری :
ریاست مہاراشٹر ایک ترقی پذیر ریاست ہے۔ یہاں کی زمین زرخیز اور کاشتکار جدید طریقے سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہاں کارخانے اور انڈسٹریز بھی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی یہ ریاست ملک کی دیگر کئی ریاستوں کے مقابلے میں آگے ہے۔ لیکن آج ریاست میں مہنگائی کا گراف بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ سبزی، ترکاری، اناج اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان پر چڑھ رہی ہیں۔ عام انسان کے لیے روزمرّہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہوتا جارہاہے۔ مہنگائی اور گرانی کی اصل وجہ ریاست میں ملٹی کمپنیز کا آنا، سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ نیز بلیک مارکیٹنگ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ کرنے کی بُری عادتیں کاروبار کرنے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ دولت کی پوجا، عیش پرستی اور زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے کی دھن نے انسان کو پاگل بنادیا ہے۔ انسان دوستی، مواسات، غمخواری اور رحم کی صفات سے عاری ہوتا جارہا ہے۔
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ان حالات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حکمراں طبقے سے یہ خواہش کرتا ہے کہ وہ جلدازجلد مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ نیز انسانوں کے درمیان انسان دوستی، مواسات اور غمخواری کی فضا کو بنانے کی فکر کرے۔
مجلس شوریٰ مہاراشٹر کو اس بات پر یقین ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ریاست میں رشوت خوری کا بازار بہت گرم ہے۔ حکمراں اور سیاست داں مختلف گھپلوں میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ کرپشن اور رشوت خوری بڑھتی جارہی ہے۔ گورنمنٹ آفِسوں میں بغیر رشوت کے کام کروانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک عام آدمی اپنے حق سے محروم ہے۔ انصاف کو ترس رہا ہے۔
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اس ماحول کو ملک کے لیے اور یہاں کے عام انسانوں کے لیے تباہی اور بربادی کی علامت سمجھتا ہے۔ جب تک رشوت خوروں اور بدعنوان افراد کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی حالات میں سُدھار ممکن نہیں ہے۔ سماج سے یہ برائی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسانوں میں خدا کا ڈر، آخرت کی جوابدہی اور انسانوں سے محبت کی صفات پیدا نہ کی جائیں۔
جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں منظور شدہ
قراردادیں
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(1) ڈاکٹر نریندر دھابولکر کا قتل اور پولس کی نااہلی:
20؍اگست 2013ء کو پونے میں ڈاکٹر نریندر دھابولکر کو بڑی بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ آنجہانی نے بھارتی سماج میں صدیوں سے جاری توہمات کے خلاف ایک زبردست جنگ چھیڑ رکھی تھی۔ وہ ’’اندھ وِشواس نِرمولن سمیتی‘‘ کے صدر تھے، جس کے ذریعے انہوں نے ڈھونگی سادھوؤں و باباؤں اور ان کے ماننے والوں کو زبردست چیلنج کیا تھا۔ بھارتیہ عوام کو اندھ وِشواس میں پھنسائے رکھنے والی نام نہاد دھارمک اور سیاسی و سماجی تنظیموں کی طرف سے انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں۔ بالآخر انہیں قتل کردیا گیا۔ اس سانحہ کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں، ہماری پولس ان کی حفاظت نہیں کرسکی اور دو ماہ گزرنے کے بعد آج تک ان کے قاتلوں کو پکڑا نہیں جاسکا۔
جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کا یہ اجلاس آنجہانی ڈاکٹر نریندر دھابولکر کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے اور انہوں نے توہمات کے خلاف جو جدوجہد کی تھی اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور ان کی اہل خانہ کے ساتھ اظہارِ ہمدردی و یگانگت کرتا ہے۔ یہ اجلاس حکومت مہاراشٹر سے مطالبہ کرتا ہے کہ ڈاکٹر نریندر دھابولکر کے قاتلوں کو اور ان کے قتل کی سازش میں ملوث لوگوں کو جلد از جلد گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے نیز ان کے لواحقین کو خاطر خواہ معاوضہ بھی ادا کیا جائے۔
(2) بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں :
دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بند نہیں ہو پارہا ہے۔ چند سالوں قبل آنجہانی ہیمنت کرکرے نے فسطائی پارٹی سے تعلق رکھنے والے کچھ دہشت گردوں کے چہرے سے پردہ اُٹھایا تھا۔ اس کے بعد اس پارٹی سے تعلق رکھنے والے سوامی اسیمانند نے اعتراف کیا تھا کہ مالیگاؤں، حیدرآباد، اجمیر اور سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے بم دھماکے ہندوتووادیوں نے ہی کیے تھے۔ اس کے علاوہ کئی مقامات پر بم سازی کے دوران بم پھٹ جانے سے کئی ہندوتووادی دہشت گرد مارے گئے۔ حال ہی میں پونے جرمن بیکری دھماکے میں ذیلی عدالت کے ذریعے سزائے موت سنائے جانے والے ملزم کے بارے میں معروف صحافی اشیس کھیتان نے اسٹنگ آپریشن کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ ATS کے ذریعے جھوٹی گواہیاں عدالت میں پیش کی گئیں جن کی بنیاد پر اسے سزائے موت سنائی گئی۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے جب کہ مرکزی وزیر داخلہ شری سشیل کمار شندے نے ریاستی حکومتوں کو یہ سرکلر جاری کیا کہ بے قصور نوجوانوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ یہ اجلاسِ شوریٰ حکومت مہاراشٹر سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جلدازجلد بے قصور مسلمانوں کو رہا کرے ورنہ آنے والے پارلیمانی اور اسمبلی چناؤ میں اسے اس ظلم کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ یہ اجلاس بھارتیہ عدلیہ کو امید بھری نظروں سے دیکھتا ہے کہ وہ اس متعصبانہ ماحول سے بالکل آزاد ہے جس میں ہماری حکومتیں پولس اور انتظامیہ ملوث ہے۔ یہ اجلاس عدلیہ سے گزارش کرتا ہے کہ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ہی جرم کو دو مجرموں نے انجام دیا ہو۔ ایک مجرم سراسر بے قصور ہے اور دوسرے مجرم کے خلاف بے شمار ثبوت فراہم کیے جاچکے ہیں، عدلیہ ان بے قصور مسلمانوں کو رہا کرنے کا فیصلہ فوری طور پر کرے۔
(3) انسداد فرقہ وارانہ فساد بل :
UPA سرکار نے اقتدار پر آنے سے قبل وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں فسادات کی موثر روک تھام کے لیے ایک بل پیش کرے گی، لیکن افسوس کہ حکومت نے پہلی میقات ضائع کردی اور دوسری میقات پر انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل تیار کیا لیکن اسے ابھی تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں کرسکی۔ مختلف عذر کے تحت بل کی پیش کشی ملتوی ہوتی رہی اور ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ چل پڑا۔ مظفر نگر کے فرقہ وارانہ فسادات کے متاثرین کے کیمپوں میں جاکر UPA چیئرپرسن اور وزیراعظم ہند نے مظلوموں کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی۔ اب بعض حلقوں کی طرف سے یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں بل پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ دیر آید درست آید کے مصداق اس بل کو پارلیمنٹ میں پاس کرائے۔ اور اپنے وعدے کو پورا کریں تاکہ ملک میں اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہو اور ملک فرقہ وارانہ فسادات کی لعنت سے نجات پائے اور دنیا میں نیک نامی حاصل کرے۔
(4) عورتوں پر مظالم اور ان کی عصمت دری :
ہمارے ملک میں خاص کر ریاست مہاراشٹر میں عورتوں پر مظالم کا سلسلہ کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔ صنف نازک گھریلو ظلم سے لے کر سماجی ظلم کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ عصمت دری کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب ایسے شرمناک واقعات رونما ہوتے ہیں تب ہر طرف احتجاج ہوتا ہے اور حکومت خاطیوں کو کڑی سزا دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ پھر اس طرح کے مقدمات التواء کا شکار ہوتے ہیں اور عوام بھی دھیرے دھیرے بھول جاتی ہے۔
یہ اجلاس ملک کے ہر باشعور شہری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان واقعات کے تدارک کے لیے آگے بڑھیں اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے حیائی پر روک لگائیں نیز ہماری نئی نسل کو اخلاقی تعلیم سے مزین کریں۔ سماج میں اخلاقی اقدار کو فروغ کرنے پر توجہ دیں۔
حکومت اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے نئی نسل کی اصلاح پر توجہ دیں اور زانیوں کے لیے سزائے موت کے قوانین نافذ کرے۔
(5) ریاست میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور رشوت خوری :
ریاست مہاراشٹر ایک ترقی پذیر ریاست ہے۔ یہاں کی زمین زرخیز اور کاشتکار جدید طریقے سے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہاں کارخانے اور انڈسٹریز بھی ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی یہ ریاست ملک کی دیگر کئی ریاستوں کے مقابلے میں آگے ہے۔ لیکن آج ریاست میں مہنگائی کا گراف بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ سبزی، ترکاری، اناج اور دیگر ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان پر چڑھ رہی ہیں۔ عام انسان کے لیے روزمرّہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا مشکل ہوتا جارہاہے۔ مہنگائی اور گرانی کی اصل وجہ ریاست میں ملٹی کمپنیز کا آنا، سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ نیز بلیک مارکیٹنگ ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ کرنے کی بُری عادتیں کاروبار کرنے والوں میں پائی جاتی ہیں۔ دولت کی پوجا، عیش پرستی اور زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے کی دھن نے انسان کو پاگل بنادیا ہے۔ انسان دوستی، مواسات، غمخواری اور رحم کی صفات سے عاری ہوتا جارہا ہے۔
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ان حالات کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ حکمراں طبقے سے یہ خواہش کرتا ہے کہ وہ جلدازجلد مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ نیز انسانوں کے درمیان انسان دوستی، مواسات اور غمخواری کی فضا کو بنانے کی فکر کرے۔
مجلس شوریٰ مہاراشٹر کو اس بات پر یقین ہے کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مہنگائی پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
ریاست میں رشوت خوری کا بازار بہت گرم ہے۔ حکمراں اور سیاست داں مختلف گھپلوں میں ملوث پائے جارہے ہیں۔ کرپشن اور رشوت خوری بڑھتی جارہی ہے۔ گورنمنٹ آفِسوں میں بغیر رشوت کے کام کروانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ سے ایک عام آدمی اپنے حق سے محروم ہے۔ انصاف کو ترس رہا ہے۔
مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس اس ماحول کو ملک کے لیے اور یہاں کے عام انسانوں کے لیے تباہی اور بربادی کی علامت سمجھتا ہے۔ جب تک رشوت خوروں اور بدعنوان افراد کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی جاتی حالات میں سُدھار ممکن نہیں ہے۔ سماج سے یہ برائی اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک کہ انسانوں میں خدا کا ڈر، آخرت کی جوابدہی اور انسانوں سے محبت کی صفات پیدا نہ کی جائیں۔