ہندوستان میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 13.4 فیصد (18
کروڑ) مسلم آبادی ہے۔ اس کے درمیان آدھی درجن بڑی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ سوال یہ
ہے کہ ملک و ملت کی فلاح کے لیے یہ تنظیمیں کیا سوچتی ہیں اور کیا کچھ کرر ہی ہیں؟
نیز پسماندگی کی شکار مسلم کمیونٹی کے سیاسی، سماجی، معیشتی اور تعلیمی امپاورمنٹ
کے لیے ان کی جانب سے کیا کوششیں کی جارہی ہیں؟ ان سب باتوں کا جائزہ لینے کے لیے
’چوتھی دنیا‘ نے مسلم تنظیموں اور شخصیات سے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس ضمن
میں 1948 میں قائم مسلمانوں کے درمیان 65 سالہ سب سے بڑی کیڈر بیسڈ تنظیم جماعت
اسلامی ہند کے امیر مولانا سید
جلال الدین عمری سے اے یو آصف اور وسیم
احمد کی تفصیلی بات چیت کے
اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں…
جماعت اسلامی ہند کی نظر میں اس ملک میں آج بنیادی مسائل اور
مسلمانوں کے اصل ایشوز کیا کیا ہیں؟
اس ملک کے بنیادی مسائل انسانی اور اخلاقی ہیں۔ انسانیت اور اخلاقیات سے دوری نے کرپشن، نفسیاتی ارتقا، خود پسندی، زیادتی، ظلم و جارحیت، تشدد و انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی نظر میں معاشرہ سے خدا اور مذہب کو جدا کردینے سے یہ چیزیں بڑھی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ خالق و مالک کے تصور کو عام کیا جائے، تاکہ ملک کے تمام شہریوں میں عجز و انکساری، مہربانی، ایثار، قربانی، وفاداری، محبت اور امن و انسان دوستی کے جذبات ابھریں۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے، تو پسماندگی، غربت، جہالت، جان و مال کے تحفظ کے مسائل نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہ ہوں گے، اس وقت تک ان کا امپاورمنٹ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ ملک کے اندر جتنے بھی فرقے ہیں، وہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ تمام فرقے کے لوگ ایک ساتھ بیٹھیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی فضا تیار کریں۔ جن چیزوں پر ہمارا مذہبی اختلاف نہیں ہے، ان پر ہم سنجیدگی اور خلوص نیت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کریں۔ مثال کے طور پر بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اورحق تلفی ہر مکتبہ فکر میں موجود ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر مل کر کام کرنا چاہیے۔ انسانی جانوں کو ہلاک کرنا کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی مذہب میں حق تلفی کی اجازت ہے۔ لہٰذا افہام و تفہیم کی راہ پیدا کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو جہاں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، وہاں انہیں ان کا حق دلانے کے لیے تمام مکتبہ ٔ فکر کے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔
مگر عام طور پر مسلم تنظیمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بابری مسجد اور فرقہ وارانہ فسادات جیسے ایشوز کو مسلمانوں کے بنیادی مسائل سمجھتی ہیں اور اسی نقطے پر ذہن سازی کرتی ہیں؟
یہ ایسے مسائل ہیں، جن میں مسلمانوں کو الجھا کر رکھ دیا گیا ہے، ورنہ مسلمانوں کے سامنے ان کے علاوہ بے شمار بنیادی مسائل ہیں، جن کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے، جیسے تعلیمی، اقتصادی اور روزگار کے مسائل۔
مگر آپ کی تنظیم سمیت دیگر مسلم جماعتیں بھی بنیادی مسائل کی بہ نسبت اس مسئلے کو بڑے زور و شور سے اٹھاتی رہی ہیں؟
یہ جز وقتی ایشوز بھی ان کے منجملہ مسائل میں شامل ہیں۔ لہٰذا انہیں بھی سامنے لانا ضروری ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تنظیمیں انھیں چند ایشوز پر سمٹ کر رہ گئی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے اہم مسائل دب کر رہ گئے۔ ملک کی تمام مسلم تنظیموں کو مسلمانوں کے حقوق دلانے کے لیے ایک ساتھ مل کر لڑنا چاہیے۔ دنیا کے ہر ملک میں اقلیت کو تحفظ دینے کے لیے کچھ خاص سہولت دی جاتی ہے اور یہی سہولت ہندوستان کے آئین میں بھی بحیثیت اقلیت مسلمانوں کو دی گئی ہے، مگر اس سہولت کا فائدہ انہیں نہیں مل رہا ہے، جس کے لیے منظم کوشش کی ضرورت ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلم تنظیمیں مسلمانوں کے جو اصل مسائل ہیں، ان کو نہیںاٹھانا چاہتی ہیں۔ البتہ ان تنظیموں کے وسائل محدود ہیں اور وہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان مسائل کی طرف توجہ دلاتی رہی ہیں۔ جنوبی ہند کی تنظیموں نے شمالی ہند کی بہ نسبت زیادہ کام کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ہند کی تنظیمیں مالی اعتبار سے زیادہ مضبوط تھیں۔ وہاں کارو بار کا رجحان بہت پہلے سے پایا جاتا ہے، لہٰذا ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بھی وسیع تھا، جبکہ شمالی ہند میں دینی تعلیم پر زیادہ توجہ دی گئی اور صنعت و معاشیات پر توجہ کم دی گئی۔
تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم پسماندگی کا سبب ہے؟
نہیں! بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تقسیم وطن کا پریشر شمالی ہند پر زیادہ تھا، جس کی وجہ سے وہ معاشی استحکام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ شمالی ہند میں تقسیم کے پریشر کا ہی نتیجہ تھا کہ اس طرف کے لوگوں نے جنوب کی بہ نسبت بہت زیادہ ہجرت کی۔
مسلم تنظیموں کے کام کی نوعیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟
تنظیمیں اپنی حیثیت کے مطابق ادارے کھول رہی ہیں۔ مسلم بچوں کو تعلیمی وظیفہ، ٹیکنیکل تربیت اور سرکاری منصوبوں سے استفادہ کرنے کے لیے خصوصی مہم چلارہی ہیں۔
کیا آپ نے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے تعلق سے سچر کمیٹی رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر ہاں، تو کیا آپ کو اس کے تجزیے سے اتفاق ہے؟
میں نے خود توپوری رپورٹ نہیں پڑھی ہے، لیکن جماعت اسلامی ہند نے اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے پوری رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے خاص نکات ذمہ داروں کے علم میں لائے۔
آپ اس رپورٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
یہ رپوٹ مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک پروف ڈاکیومنٹ ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ کس رفتار سے تعلیم، روزگار اور معیشت میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوا ہے۔ اسی رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا کہ جو پارٹی جتنا سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہاں مسلمانوں کی حالت اتنی ہی زیادہ خراب ہے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال کو ہی لیں۔ یہاں 30 برس کانگریس اور 34 برس لیفٹ فرنٹ کی حکومتیں رہیں، مگر یہ ریاست مسلم پسماندگی میں اس رپورٹ کی روشنی میں سب سے آگے ہے اور ترنمول کانگریس کے دور میں بھی ابھی تک اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس خراب حالت تک پہنچایا ہے۔ جو صنعتیں مسلمانوں کے ہاتھوں میںتھیں، انہیں ختم کر دیا گیا ہے یا ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ وہ صنعتیں دوسری کمیونٹی کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں، جیسے مراد آباد میں پیتل کا کام مسلمان کرتے تھے۔ پھر اس کام کو مشین سے انجام دیا جانے لگا۔ ظاہر ہے، اقتصادی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے مسلمان مشین خریدنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لہٰذا غیر مسلموں نے ان مشینوں کو خریدا اور جو مسلم کاریگر تھے، انہوں نے ان کے یہاں نوکری کرلی۔ اس طرح جو پیشہ مسلمانوں کے لیے خاص تھا، اسی پیشہ کے مالک ہندو اور ان کے کاریگر مسلمان بن گئے۔ اسی رپورٹ کے ایک باب میں، جسے بعد میں حذف کردیا گیا، جیل میں مسلم آبادی کے تناسب کو دوسرے شعبوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ بتایا گیا تھا، جو کہ اس رپورٹ کے بعد کافی بڑھی ہے۔
مگر اس سلسلے میں گجرات سرکار کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہاں محکمہ پولس میں 12 فیصد مسلمان ہیں، جو کسی دیگر ریاست میں نہیں ہیں۔
اگر کسی ایک یا دو شعبے میں مسلمانوں کو تناسب کے حساب سے نمائندگی دی گئی ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی وہاں مسلمانوں کی ترقی ہوئی ہے۔ فساد کے بعد تو یہاں مسلمانوں کا کارو بار ٹھہر سا گیا ہے۔ تاجرین پر خوف طاری ہے۔ مسلمانوں کی ترقی تو تبھی سمجھی جائے گی، جب تعلیم، روزگار اور دیگر شعبوں میں بھی ان کی نمائندگی تناسب کے اعتبار سے ہو۔
مگر اعد ادو شمار بتاتے ہیں کہ دیگر ریاستوں کی بہ نسبت گجرات کے مسلمان خوشحال ہیں اور ان کی تجارت کا تناسب بھی بہتر ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے، تو اس میں نریندر مودی کا کوئی کمال نہیں ہے۔ وہاں تو ترقی پہلے سے ہی تھی، بلکہ 2002 میں گجرات فساد کے بعد ان کی ترقی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے، سراسر غلط ہے۔
کشمیر میں شراب پر پابندی نہیں ہے، جبکہ گجرات میں شراب پر پابندی ہے۔ کیا آپ اس فیصلے پر نریندر مودی کو نہیں سراہیں گے؟
جو کام اچھا ہے، اس پر تعریف یقینا ہونی چاہیے۔ گجرات میں شراب بندی کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔
تو کیا آپ بی جے پی کی حمایت کرسکتے ہیں؟
بی جے پی مسلمانوں کے بارے میں واضح پالیسی لائے، مسلمانوں کو بطور اقلیت جو حقوق اور اختیارات و مراعات آئین میں دیے گئے ہیں، اس کے نفاذ کی یقین دہانی کرائے، تو اس کی حمایت کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن جائیں، تو آپ کا قدم کیا ہوگا؟
بی جے پی کی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کی بات ہے، تو کسی بھی پارٹی نے مسلمانوں کے لیے مخلصانہ کوشش نہیں کی؟ پھر بی جے پی سے ہی دوری کیوں؟
کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو، کسی نے بھی مسلم مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے، تو اس کے پاس مسلمانوں کے لیے کوئی واضح منشور نہیں ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات کی نفاذ کے تعلق سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی بیشتر سفارشات پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔کیا حکومت کے اس دعوے پر آپ کو اطمینان ہے؟
حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس نے سچر کمیٹی کی بیشتر سفارشات کو نافذ کردیا ہے، مگر عملی طور پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ جس دن مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہتر ہوجائے گی، انہیں روزگار میں مناسب نمائندگی دی جانے لگے گی، انہیں آئین میں ملے تحفظ کا واقعی نفاذ ہوجائے گا اور اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے، تب سمجھا جائے گا کہ حکومت کا یہ دعویٰ صحیح ہے، جو فی الوقت نظر نہیں آرہا ہے۔
ایکوئل اپارچونیٹی کمیشن (Equal Opportunity Commission) کی سفارش کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
اس سفارش سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ہے، کیونکہ اس سفارش کا فائدہ مسلمان نہیں اٹھا پائیں گے، کیونکہ جب ان میں تعلیم بہت کم ہے، تو وہ نوکری میں کامیاب کیسے ہوں گے؟ اگر حکومت واقعی مخلص ہے، تو مسلمانوں کو ایسے میدانوں میں، جہاں زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، وہاں انہیں روزگار کے مواقع دے، جیسے پولس اور فوج میں کم تعلیم پانے والوں کے لیے بھی مواقع ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں وہاں بھی روزگار کے مواقع نہیں ہیں یا نہیں کے برابر دیے جاتے ہیں۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی مستقل طور پر بڑھی ہے، جبکہ ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے حکومتیں کیں اور متعدد مسلم تنظیمیں بھی سرگرم عمل رہیں۔ پھر مسلمان پسماندگی کی طرف اتنا کیوں بڑھتا گیا کہ وہ نیو بدھسٹوں کو بھی مات دے گیا اور اسے ریزرویشن کی نوبت تک آگئی؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی معاشی اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں اور مسلم تنظیموں کے وسائل بھی محدود ہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ آئینی اعتبار سے جو ریزرویشن انہیں دیا گیا ہے، اس میں بھی شفافیت نہیں ہے، ایسے میں اس طبقے کاپسماندہ ہونا تو یقینی ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کو ریزرویشن دیے جانے کے تئیں آپ کی کیا رائے ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ جو ریزرویشن دیا گیا ہے، اس میں دھوکہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ ریزرویشن معاشی بنیاد پر ملنا چاہیے، مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر نہیں۔
آزاد ہندوستان میں بحیثیت مجموعی ملک کی ترقی اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لیے جماعت نے مختلف شعبۂ حیات میں کیا کام کیا ہے؟
جماعت نے مختلف شعبوں میں جو کام کیے ہیں، وہ نمایاں ہیں۔ ان سے ملک و ملت کے سبھی لوگ بلا تفریق مذہب و ملت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کی رپورٹ برائے جنوری 2011 تا دسمبر 2012 کے مطابق، اس نے ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں تعلیم کے میدان میں 468 اسکولس، 37 کالجز، 697 مراکز فاصلاتی تعلیم، 714 مراکز بالغان و بالغات، 47 مدارس، 457 مکاتب اور 1217 جز وقتی مکاتب قائم کیے ہیں۔ نیز 52 ہزار 313 افراد کو تعلیمی امداد اور 48 ہزار 838 افراد کو مستقل وظائف دیے گئے۔ اسی طرح خدمت خلق میں 11 اسپتال اور 89 کلینک کے قیام کے ساتھ ساتھ 60 ہزار 657 افراد کو طبی امداد، 93 ہزار 832 افراد کو وقتی امداد دی گئی۔جماعت اسلام کے صحیح تعارف کے علاوہ بین المذاہب ڈائیلاگ کا بھی اہتمام کرتی ہے، تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے۔
آج ملک کی سیاسی پارٹیوں میں ووٹر کا اعتماد و یقین کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی آدھی سے کم آبادی اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرتی ہے۔ جمہوریت کے لیے خطرناک اس رجحان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا حال میں ’’ رائٹ ٹو رجیکٹ‘‘ کے فیصلے سے اس سلسلے میں کوئی فرق پڑے گا؟
ووٹ ہر شہری کا حق ہے اور اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹ کا استعمال کرکے صحیح نمائندے کو لیجسلیچرس تک بھیجا جا سکتا ہے۔ جہاں تک رائٹ ٹو رجیکٹ کی بات ہے، تو یہ فی الوقت بہت مؤثر ثابت نہیں ہوگا، لیکن منجملہ یہ ایک اچھی شروعات ہے اور ووٹروں کو مزید ایک حق ملا ہے کہ وہ اپنے ناپسندیدہ امیدوار کو مسترد کرسکیں۔
جہاں تک لیجسلیچرس میں عوام کی نمائندگی کا سوال ہے، معروف سماجی کارکن انا ہزارے کا کہنا ہے کہ آئین میں سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کا کوئی حوالہ اورذکر نہیں ہے اور 1951 میں پیپلز ریپریزینٹیشن ایکٹ (Peoples Representation Act) کے ذریعے یہ غیر آئینی طور پر نمائندگی کی دعویدار بن بیٹھیں۔ لہٰذا انہیں تحلیل کرکے عام عوام کو خود نمائندگی کا اختیار ملنا چاہیے۔ اسی ضمن میں متناسب نمائندگی طریقۂ انتخاب کا بھی ذکر آتا ہے۔ اس پورے ایشو پر آپ کی رائے کیا ہے؟
میں نہیں سمجھتا کہ سیاسی پارٹی کے بغیر حکومت چلائی جاسکتی ہے، لیکن اگر واقعی آئین میں سیاسی پارٹی کا تذکرہ نہیں ہے، تو پھر ترمیم کے ذریعہ اس کو شامل کرنا چاہیے یا پھر کوئی ایسا متبادل ہو، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام اپنا نمائندہ ایوان تک براہ راست بھیج سکیں۔ انا ہزارے جو کہتے ہیں، اس کی شکل میرے سامنے واضح نہیں ہے۔ اگر شکل بنتی ہو، تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
مسلمان لوک سبھا کی تقریباً نصف سیٹوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود بے وزن کیوں ہے؟ سیاسی طور پر ڈِس امپاورڈ کیوں ہے؟ آپ کے خیال میں اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
آپ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان نصف سیٹوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ان کی کل 13.4 فیصد (18 کروڑ) آبادی ہے اور غیر مسلموں کی آبادی 80.5 فیصد ہے، تو 13.4 فیصد 80.5 فیصد پر اثر انداز کیسے ہوسکتا ہے؟
کیونکہ غیر مسلموں کا ووٹ بٹ جاتا ہے۔
ووٹ تو مسلمانوں کا بھی بٹتا ہے اور آپ اس کو روک بھی نہیں سکتے۔ ہاں، کچھ سیٹیں ہیں جہاں وہ اثر انداز ہوسکتے ہیں، مگر وہاں بھی وہ اپنی اس پوزیشن سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں، کیونکہ وہ پارٹیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ اگر ملک کے تمام مسلمان متحد ہوجائیں، تو پھر واقعی 13.4 فیصد سیٹوں پر اثر انداز ہو جائیں گے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی مسائل میں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے مسائل کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔
یہ کہنا سراسر غلط ہے، بلکہ سچائی یہ ہے کہ پارٹیاں خود بھی نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمان قومی مسائل میں دلچسپی لیں، کیونکہ اگر وہ قومی مسائل میں دلچسپی لیں گے، تو ایسی صورت میں انہیں قومی ترقی میں تناسب کے اعتبار سے شیئر دینا پڑے گا، جبکہ وہ مسلمانوں کی ترقی کو کبھی نہیں چاہیں گی اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مین اسٹریم سے دور رکھتی ہیں اور چونکہ حکومت انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنا چاہتی ہے، لہٰذا مسلمانو ں کو خود ہی اپنے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور وہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مسائل میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔
حکومت میں مسلم نمائندوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حکومت ایسے مسلم لیڈر کو منتخب کرتی ہے، جو نام کا ہو، کام کا نہیں۔ اگر حکومت واقعی مسلم نمائندگی چاہتی ہے، تو ایسے فرد کو نمائندگی دے، جسے کم سے کم 15 فیصد مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو۔ مجھے یاد ہے کہ 2002 کے گجرات فساد کے بعد ایک مسلم وفد وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے ملنے گیا۔ اس وفد میں میں بھی تھا۔ بات چیت کے دوران ایک موقع پر جب میں نے واجپئی جی سے کہا کہ شاہنواز حسین آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، تو اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ شاہنواز آپ کے نہیں، پارٹی کے آدمی ہیں۔ اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں جو مسلمان ہیں، وہ مسلمانوں کے فائدے کے لیے نہیں، بلکہ پارٹی کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ویلفیئر پارٹی الیکشن میں جن مقاصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے، کیا جماعت اس کی تائید کررہی ہے؟
جماعت اس کی تائید کرتی ہے، مگر یہ تو ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
مسلمانوں کو سیاسی ڈِس امپاورمنٹ سے نکلنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
سیاسی ڈِس امپاورمنٹ سے باہر نکلنے کے لیے سیاسی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ جماعت اکتوبر 2013 تا جنوری 2014 پورے ملک میں اس تعلق سے سیاسی بیداری مہم چلا رہی ہے۔ اس میں چار اہم مسائل: کرپشن، فرقہ وارانہ فسطائیت، سرمایا دارانہ استعمار اور شہری حقوق کو فوکس کیا جارہاہے، تاکہ ملک کو درپیش ان خطرات کے سلسلے میں عوام بیدار ہوں اور انتخابات میں انہیں اپنا ایجنڈا بنائیں۔
کرپشن کے تعلق سے جماعت کا کیا موقف ہے؟ اناہزارے کی کرپشن مخالف مہم کے بارے میں یہ کیا سوچتی ہے؟
کرپشن کی کسی بھی مہذب سماج میں اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اظہار کیا کہ کرپشن و دیگر سماجی برائیاں معاشرہ میں خدا اور مذہب سے دوری کی وجہ سے فروغ پاتی ہیں۔ لہٰذا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انا ہزارے نے کرپشن مخالف جو مہم شروع کر رکھی ہے، جماعت یقینا اس کے حق میں ہے۔ انا نے شروع میں تو مرکز جماعت آنے کا پروگرام بنایا تھا، مگر کسی وجہ سے نہ آنے کی صورت میں ایک وفد کو بھیجا تھا۔ اس وفد سے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ جن لوک پال جیسا قانون ضروری ہے، مگر صرف اسی سے کام نہیںچلے گا۔ اس کے لیے خدا کے وجود پر تصور ضروری ہے۔ خوف خدا ہی سے لینے اور دینے والے دونوں کے ہاتھ رک سکتے ہیں۔ ازالۂ کرپشن کو تو جماعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ متعدد ریاستوں میں اس تعلق سے باضابطہ بیداری مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
اس ملک کے بنیادی مسائل انسانی اور اخلاقی ہیں۔ انسانیت اور اخلاقیات سے دوری نے کرپشن، نفسیاتی ارتقا، خود پسندی، زیادتی، ظلم و جارحیت، تشدد و انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی نظر میں معاشرہ سے خدا اور مذہب کو جدا کردینے سے یہ چیزیں بڑھی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ خالق و مالک کے تصور کو عام کیا جائے، تاکہ ملک کے تمام شہریوں میں عجز و انکساری، مہربانی، ایثار، قربانی، وفاداری، محبت اور امن و انسان دوستی کے جذبات ابھریں۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے، تو پسماندگی، غربت، جہالت، جان و مال کے تحفظ کے مسائل نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہ ہوں گے، اس وقت تک ان کا امپاورمنٹ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ ملک کے اندر جتنے بھی فرقے ہیں، وہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ تمام فرقے کے لوگ ایک ساتھ بیٹھیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی فضا تیار کریں۔ جن چیزوں پر ہمارا مذہبی اختلاف نہیں ہے، ان پر ہم سنجیدگی اور خلوص نیت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کریں۔ مثال کے طور پر بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اورحق تلفی ہر مکتبہ فکر میں موجود ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر مل کر کام کرنا چاہیے۔ انسانی جانوں کو ہلاک کرنا کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی مذہب میں حق تلفی کی اجازت ہے۔ لہٰذا افہام و تفہیم کی راہ پیدا کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو جہاں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، وہاں انہیں ان کا حق دلانے کے لیے تمام مکتبہ ٔ فکر کے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔
مگر عام طور پر مسلم تنظیمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بابری مسجد اور فرقہ وارانہ فسادات جیسے ایشوز کو مسلمانوں کے بنیادی مسائل سمجھتی ہیں اور اسی نقطے پر ذہن سازی کرتی ہیں؟
یہ ایسے مسائل ہیں، جن میں مسلمانوں کو الجھا کر رکھ دیا گیا ہے، ورنہ مسلمانوں کے سامنے ان کے علاوہ بے شمار بنیادی مسائل ہیں، جن کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے، جیسے تعلیمی، اقتصادی اور روزگار کے مسائل۔
مگر آپ کی تنظیم سمیت دیگر مسلم جماعتیں بھی بنیادی مسائل کی بہ نسبت اس مسئلے کو بڑے زور و شور سے اٹھاتی رہی ہیں؟
یہ جز وقتی ایشوز بھی ان کے منجملہ مسائل میں شامل ہیں۔ لہٰذا انہیں بھی سامنے لانا ضروری ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تنظیمیں انھیں چند ایشوز پر سمٹ کر رہ گئی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے اہم مسائل دب کر رہ گئے۔ ملک کی تمام مسلم تنظیموں کو مسلمانوں کے حقوق دلانے کے لیے ایک ساتھ مل کر لڑنا چاہیے۔ دنیا کے ہر ملک میں اقلیت کو تحفظ دینے کے لیے کچھ خاص سہولت دی جاتی ہے اور یہی سہولت ہندوستان کے آئین میں بھی بحیثیت اقلیت مسلمانوں کو دی گئی ہے، مگر اس سہولت کا فائدہ انہیں نہیں مل رہا ہے، جس کے لیے منظم کوشش کی ضرورت ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلم تنظیمیں مسلمانوں کے جو اصل مسائل ہیں، ان کو نہیںاٹھانا چاہتی ہیں۔ البتہ ان تنظیموں کے وسائل محدود ہیں اور وہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان مسائل کی طرف توجہ دلاتی رہی ہیں۔ جنوبی ہند کی تنظیموں نے شمالی ہند کی بہ نسبت زیادہ کام کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ہند کی تنظیمیں مالی اعتبار سے زیادہ مضبوط تھیں۔ وہاں کارو بار کا رجحان بہت پہلے سے پایا جاتا ہے، لہٰذا ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بھی وسیع تھا، جبکہ شمالی ہند میں دینی تعلیم پر زیادہ توجہ دی گئی اور صنعت و معاشیات پر توجہ کم دی گئی۔
تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم پسماندگی کا سبب ہے؟
نہیں! بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تقسیم وطن کا پریشر شمالی ہند پر زیادہ تھا، جس کی وجہ سے وہ معاشی استحکام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ شمالی ہند میں تقسیم کے پریشر کا ہی نتیجہ تھا کہ اس طرف کے لوگوں نے جنوب کی بہ نسبت بہت زیادہ ہجرت کی۔
مسلم تنظیموں کے کام کی نوعیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟
تنظیمیں اپنی حیثیت کے مطابق ادارے کھول رہی ہیں۔ مسلم بچوں کو تعلیمی وظیفہ، ٹیکنیکل تربیت اور سرکاری منصوبوں سے استفادہ کرنے کے لیے خصوصی مہم چلارہی ہیں۔
کیا آپ نے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے تعلق سے سچر کمیٹی رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر ہاں، تو کیا آپ کو اس کے تجزیے سے اتفاق ہے؟
میں نے خود توپوری رپورٹ نہیں پڑھی ہے، لیکن جماعت اسلامی ہند نے اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے پوری رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے خاص نکات ذمہ داروں کے علم میں لائے۔
آپ اس رپورٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
یہ رپوٹ مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک پروف ڈاکیومنٹ ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ کس رفتار سے تعلیم، روزگار اور معیشت میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوا ہے۔ اسی رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا کہ جو پارٹی جتنا سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہاں مسلمانوں کی حالت اتنی ہی زیادہ خراب ہے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال کو ہی لیں۔ یہاں 30 برس کانگریس اور 34 برس لیفٹ فرنٹ کی حکومتیں رہیں، مگر یہ ریاست مسلم پسماندگی میں اس رپورٹ کی روشنی میں سب سے آگے ہے اور ترنمول کانگریس کے دور میں بھی ابھی تک اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس خراب حالت تک پہنچایا ہے۔ جو صنعتیں مسلمانوں کے ہاتھوں میںتھیں، انہیں ختم کر دیا گیا ہے یا ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ وہ صنعتیں دوسری کمیونٹی کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں، جیسے مراد آباد میں پیتل کا کام مسلمان کرتے تھے۔ پھر اس کام کو مشین سے انجام دیا جانے لگا۔ ظاہر ہے، اقتصادی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے مسلمان مشین خریدنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لہٰذا غیر مسلموں نے ان مشینوں کو خریدا اور جو مسلم کاریگر تھے، انہوں نے ان کے یہاں نوکری کرلی۔ اس طرح جو پیشہ مسلمانوں کے لیے خاص تھا، اسی پیشہ کے مالک ہندو اور ان کے کاریگر مسلمان بن گئے۔ اسی رپورٹ کے ایک باب میں، جسے بعد میں حذف کردیا گیا، جیل میں مسلم آبادی کے تناسب کو دوسرے شعبوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ بتایا گیا تھا، جو کہ اس رپورٹ کے بعد کافی بڑھی ہے۔
مگر اس سلسلے میں گجرات سرکار کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہاں محکمہ پولس میں 12 فیصد مسلمان ہیں، جو کسی دیگر ریاست میں نہیں ہیں۔
اگر کسی ایک یا دو شعبے میں مسلمانوں کو تناسب کے حساب سے نمائندگی دی گئی ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی وہاں مسلمانوں کی ترقی ہوئی ہے۔ فساد کے بعد تو یہاں مسلمانوں کا کارو بار ٹھہر سا گیا ہے۔ تاجرین پر خوف طاری ہے۔ مسلمانوں کی ترقی تو تبھی سمجھی جائے گی، جب تعلیم، روزگار اور دیگر شعبوں میں بھی ان کی نمائندگی تناسب کے اعتبار سے ہو۔
مگر اعد ادو شمار بتاتے ہیں کہ دیگر ریاستوں کی بہ نسبت گجرات کے مسلمان خوشحال ہیں اور ان کی تجارت کا تناسب بھی بہتر ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے، تو اس میں نریندر مودی کا کوئی کمال نہیں ہے۔ وہاں تو ترقی پہلے سے ہی تھی، بلکہ 2002 میں گجرات فساد کے بعد ان کی ترقی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے، سراسر غلط ہے۔
کشمیر میں شراب پر پابندی نہیں ہے، جبکہ گجرات میں شراب پر پابندی ہے۔ کیا آپ اس فیصلے پر نریندر مودی کو نہیں سراہیں گے؟
جو کام اچھا ہے، اس پر تعریف یقینا ہونی چاہیے۔ گجرات میں شراب بندی کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔
تو کیا آپ بی جے پی کی حمایت کرسکتے ہیں؟
بی جے پی مسلمانوں کے بارے میں واضح پالیسی لائے، مسلمانوں کو بطور اقلیت جو حقوق اور اختیارات و مراعات آئین میں دیے گئے ہیں، اس کے نفاذ کی یقین دہانی کرائے، تو اس کی حمایت کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن جائیں، تو آپ کا قدم کیا ہوگا؟
بی جے پی کی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کی بات ہے، تو کسی بھی پارٹی نے مسلمانوں کے لیے مخلصانہ کوشش نہیں کی؟ پھر بی جے پی سے ہی دوری کیوں؟
کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو، کسی نے بھی مسلم مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے، تو اس کے پاس مسلمانوں کے لیے کوئی واضح منشور نہیں ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات کی نفاذ کے تعلق سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی بیشتر سفارشات پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔کیا حکومت کے اس دعوے پر آپ کو اطمینان ہے؟
حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس نے سچر کمیٹی کی بیشتر سفارشات کو نافذ کردیا ہے، مگر عملی طور پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ جس دن مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہتر ہوجائے گی، انہیں روزگار میں مناسب نمائندگی دی جانے لگے گی، انہیں آئین میں ملے تحفظ کا واقعی نفاذ ہوجائے گا اور اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے، تب سمجھا جائے گا کہ حکومت کا یہ دعویٰ صحیح ہے، جو فی الوقت نظر نہیں آرہا ہے۔
ایکوئل اپارچونیٹی کمیشن (Equal Opportunity Commission) کی سفارش کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
اس سفارش سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ہے، کیونکہ اس سفارش کا فائدہ مسلمان نہیں اٹھا پائیں گے، کیونکہ جب ان میں تعلیم بہت کم ہے، تو وہ نوکری میں کامیاب کیسے ہوں گے؟ اگر حکومت واقعی مخلص ہے، تو مسلمانوں کو ایسے میدانوں میں، جہاں زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، وہاں انہیں روزگار کے مواقع دے، جیسے پولس اور فوج میں کم تعلیم پانے والوں کے لیے بھی مواقع ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں وہاں بھی روزگار کے مواقع نہیں ہیں یا نہیں کے برابر دیے جاتے ہیں۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی مستقل طور پر بڑھی ہے، جبکہ ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے حکومتیں کیں اور متعدد مسلم تنظیمیں بھی سرگرم عمل رہیں۔ پھر مسلمان پسماندگی کی طرف اتنا کیوں بڑھتا گیا کہ وہ نیو بدھسٹوں کو بھی مات دے گیا اور اسے ریزرویشن کی نوبت تک آگئی؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی معاشی اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں اور مسلم تنظیموں کے وسائل بھی محدود ہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ آئینی اعتبار سے جو ریزرویشن انہیں دیا گیا ہے، اس میں بھی شفافیت نہیں ہے، ایسے میں اس طبقے کاپسماندہ ہونا تو یقینی ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کو ریزرویشن دیے جانے کے تئیں آپ کی کیا رائے ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ جو ریزرویشن دیا گیا ہے، اس میں دھوکہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ ریزرویشن معاشی بنیاد پر ملنا چاہیے، مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر نہیں۔
آزاد ہندوستان میں بحیثیت مجموعی ملک کی ترقی اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لیے جماعت نے مختلف شعبۂ حیات میں کیا کام کیا ہے؟
جماعت نے مختلف شعبوں میں جو کام کیے ہیں، وہ نمایاں ہیں۔ ان سے ملک و ملت کے سبھی لوگ بلا تفریق مذہب و ملت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کی رپورٹ برائے جنوری 2011 تا دسمبر 2012 کے مطابق، اس نے ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں تعلیم کے میدان میں 468 اسکولس، 37 کالجز، 697 مراکز فاصلاتی تعلیم، 714 مراکز بالغان و بالغات، 47 مدارس، 457 مکاتب اور 1217 جز وقتی مکاتب قائم کیے ہیں۔ نیز 52 ہزار 313 افراد کو تعلیمی امداد اور 48 ہزار 838 افراد کو مستقل وظائف دیے گئے۔ اسی طرح خدمت خلق میں 11 اسپتال اور 89 کلینک کے قیام کے ساتھ ساتھ 60 ہزار 657 افراد کو طبی امداد، 93 ہزار 832 افراد کو وقتی امداد دی گئی۔جماعت اسلام کے صحیح تعارف کے علاوہ بین المذاہب ڈائیلاگ کا بھی اہتمام کرتی ہے، تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے۔
آج ملک کی سیاسی پارٹیوں میں ووٹر کا اعتماد و یقین کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی آدھی سے کم آبادی اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرتی ہے۔ جمہوریت کے لیے خطرناک اس رجحان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا حال میں ’’ رائٹ ٹو رجیکٹ‘‘ کے فیصلے سے اس سلسلے میں کوئی فرق پڑے گا؟
ووٹ ہر شہری کا حق ہے اور اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹ کا استعمال کرکے صحیح نمائندے کو لیجسلیچرس تک بھیجا جا سکتا ہے۔ جہاں تک رائٹ ٹو رجیکٹ کی بات ہے، تو یہ فی الوقت بہت مؤثر ثابت نہیں ہوگا، لیکن منجملہ یہ ایک اچھی شروعات ہے اور ووٹروں کو مزید ایک حق ملا ہے کہ وہ اپنے ناپسندیدہ امیدوار کو مسترد کرسکیں۔
جہاں تک لیجسلیچرس میں عوام کی نمائندگی کا سوال ہے، معروف سماجی کارکن انا ہزارے کا کہنا ہے کہ آئین میں سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کا کوئی حوالہ اورذکر نہیں ہے اور 1951 میں پیپلز ریپریزینٹیشن ایکٹ (Peoples Representation Act) کے ذریعے یہ غیر آئینی طور پر نمائندگی کی دعویدار بن بیٹھیں۔ لہٰذا انہیں تحلیل کرکے عام عوام کو خود نمائندگی کا اختیار ملنا چاہیے۔ اسی ضمن میں متناسب نمائندگی طریقۂ انتخاب کا بھی ذکر آتا ہے۔ اس پورے ایشو پر آپ کی رائے کیا ہے؟
میں نہیں سمجھتا کہ سیاسی پارٹی کے بغیر حکومت چلائی جاسکتی ہے، لیکن اگر واقعی آئین میں سیاسی پارٹی کا تذکرہ نہیں ہے، تو پھر ترمیم کے ذریعہ اس کو شامل کرنا چاہیے یا پھر کوئی ایسا متبادل ہو، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام اپنا نمائندہ ایوان تک براہ راست بھیج سکیں۔ انا ہزارے جو کہتے ہیں، اس کی شکل میرے سامنے واضح نہیں ہے۔ اگر شکل بنتی ہو، تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
مسلمان لوک سبھا کی تقریباً نصف سیٹوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود بے وزن کیوں ہے؟ سیاسی طور پر ڈِس امپاورڈ کیوں ہے؟ آپ کے خیال میں اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
آپ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان نصف سیٹوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ان کی کل 13.4 فیصد (18 کروڑ) آبادی ہے اور غیر مسلموں کی آبادی 80.5 فیصد ہے، تو 13.4 فیصد 80.5 فیصد پر اثر انداز کیسے ہوسکتا ہے؟
کیونکہ غیر مسلموں کا ووٹ بٹ جاتا ہے۔
ووٹ تو مسلمانوں کا بھی بٹتا ہے اور آپ اس کو روک بھی نہیں سکتے۔ ہاں، کچھ سیٹیں ہیں جہاں وہ اثر انداز ہوسکتے ہیں، مگر وہاں بھی وہ اپنی اس پوزیشن سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں، کیونکہ وہ پارٹیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ اگر ملک کے تمام مسلمان متحد ہوجائیں، تو پھر واقعی 13.4 فیصد سیٹوں پر اثر انداز ہو جائیں گے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی مسائل میں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے مسائل کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔
یہ کہنا سراسر غلط ہے، بلکہ سچائی یہ ہے کہ پارٹیاں خود بھی نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمان قومی مسائل میں دلچسپی لیں، کیونکہ اگر وہ قومی مسائل میں دلچسپی لیں گے، تو ایسی صورت میں انہیں قومی ترقی میں تناسب کے اعتبار سے شیئر دینا پڑے گا، جبکہ وہ مسلمانوں کی ترقی کو کبھی نہیں چاہیں گی اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مین اسٹریم سے دور رکھتی ہیں اور چونکہ حکومت انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنا چاہتی ہے، لہٰذا مسلمانو ں کو خود ہی اپنے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور وہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مسائل میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔
حکومت میں مسلم نمائندوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حکومت ایسے مسلم لیڈر کو منتخب کرتی ہے، جو نام کا ہو، کام کا نہیں۔ اگر حکومت واقعی مسلم نمائندگی چاہتی ہے، تو ایسے فرد کو نمائندگی دے، جسے کم سے کم 15 فیصد مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو۔ مجھے یاد ہے کہ 2002 کے گجرات فساد کے بعد ایک مسلم وفد وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے ملنے گیا۔ اس وفد میں میں بھی تھا۔ بات چیت کے دوران ایک موقع پر جب میں نے واجپئی جی سے کہا کہ شاہنواز حسین آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، تو اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ شاہنواز آپ کے نہیں، پارٹی کے آدمی ہیں۔ اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں جو مسلمان ہیں، وہ مسلمانوں کے فائدے کے لیے نہیں، بلکہ پارٹی کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ویلفیئر پارٹی الیکشن میں جن مقاصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے، کیا جماعت اس کی تائید کررہی ہے؟
جماعت اس کی تائید کرتی ہے، مگر یہ تو ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
مسلمانوں کو سیاسی ڈِس امپاورمنٹ سے نکلنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
سیاسی ڈِس امپاورمنٹ سے باہر نکلنے کے لیے سیاسی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ جماعت اکتوبر 2013 تا جنوری 2014 پورے ملک میں اس تعلق سے سیاسی بیداری مہم چلا رہی ہے۔ اس میں چار اہم مسائل: کرپشن، فرقہ وارانہ فسطائیت، سرمایا دارانہ استعمار اور شہری حقوق کو فوکس کیا جارہاہے، تاکہ ملک کو درپیش ان خطرات کے سلسلے میں عوام بیدار ہوں اور انتخابات میں انہیں اپنا ایجنڈا بنائیں۔
کرپشن کے تعلق سے جماعت کا کیا موقف ہے؟ اناہزارے کی کرپشن مخالف مہم کے بارے میں یہ کیا سوچتی ہے؟
کرپشن کی کسی بھی مہذب سماج میں اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اظہار کیا کہ کرپشن و دیگر سماجی برائیاں معاشرہ میں خدا اور مذہب سے دوری کی وجہ سے فروغ پاتی ہیں۔ لہٰذا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انا ہزارے نے کرپشن مخالف جو مہم شروع کر رکھی ہے، جماعت یقینا اس کے حق میں ہے۔ انا نے شروع میں تو مرکز جماعت آنے کا پروگرام بنایا تھا، مگر کسی وجہ سے نہ آنے کی صورت میں ایک وفد کو بھیجا تھا۔ اس وفد سے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ جن لوک پال جیسا قانون ضروری ہے، مگر صرف اسی سے کام نہیںچلے گا۔ اس کے لیے خدا کے وجود پر تصور ضروری ہے۔ خوف خدا ہی سے لینے اور دینے والے دونوں کے ہاتھ رک سکتے ہیں۔ ازالۂ کرپشن کو تو جماعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ متعدد ریاستوں میں اس تعلق سے باضابطہ بیداری مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
No comments:
Post a Comment