Tuesday, 29 October 2013

Islamic Litrature Stall In Mbadevi Yatra By Jamaat Islami Hind Amravati


Jamaat Islami Hind Build 200 Homes For Riot Victim Of Muzaffarnagar


مسلمانوں کو جذباتی مسائل میں الجھایا گیا ہے: مولانا سید جلال الدین عمری



ہندوستان میں 2011 کی مردم شماری کے مطابق 13.4 فیصد (18 کروڑ) مسلم آبادی ہے۔ اس کے درمیان آدھی درجن بڑی تنظیمیں سرگرم عمل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ملک و ملت کی فلاح کے لیے یہ تنظیمیں کیا سوچتی ہیں اور کیا کچھ کرر ہی ہیں؟ نیز پسماندگی کی شکار مسلم کمیونٹی کے سیاسی، سماجی، معیشتی اور تعلیمی امپاورمنٹ کے لیے ان کی جانب سے کیا کوششیں کی جارہی ہیں؟ ان سب باتوں کا جائزہ لینے کے لیے ’چوتھی دنیا‘ نے مسلم تنظیموں اور شخصیات سے انٹرویوز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس ضمن میں 1948 میں قائم مسلمانوں کے درمیان 65 سالہ سب سے بڑی کیڈر بیسڈ تنظیم جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری سے اے یو آصف اور وسیم احمد کی تفصیلی بات چیت کے اہم اقتباسات پیش خدمت ہیں
جماعت اسلامی ہند کی نظر میں اس ملک میں آج بنیادی مسائل اور مسلمانوں کے اصل ایشوز کیا کیا ہیں؟
p-3اس ملک کے بنیادی مسائل انسانی اور اخلاقی ہیں۔ انسانیت اور اخلاقیات سے دوری نے کرپشن، نفسیاتی ارتقا، خود پسندی، زیادتی، ظلم و جارحیت، تشدد و انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی نظر میں معاشرہ سے خدا اور مذہب کو جدا کردینے سے یہ چیزیں بڑھی ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ خالق و مالک کے تصور کو عام کیا جائے، تاکہ ملک کے تمام شہریوں میں عجز و انکساری، مہربانی، ایثار، قربانی، وفاداری، محبت اور امن و انسان دوستی کے جذبات ابھریں۔
جہاں تک مسلمانوں کا سوال ہے، تو پسماندگی، غربت، جہالت، جان و مال کے تحفظ کے مسائل نے انہیں گھیر رکھا ہے۔ جب تک یہ مسائل حل نہ ہوں گے، اس وقت تک ان کا امپاورمنٹ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بڑی پریشانی یہ ہے کہ ملک کے اندر جتنے بھی فرقے ہیں، وہ ایک دوسرے کے مسائل کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ہونا یہ چاہیے کہ تمام فرقے کے لوگ ایک ساتھ بیٹھیں اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی فضا تیار کریں۔ جن چیزوں پر ہمارا مذہبی اختلاف نہیں ہے، ان پر ہم سنجیدگی اور خلوص نیت کے ساتھ مشترکہ طور پر کام کریں۔ مثال کے طور پر بدعنوانی، اخلاقی گراوٹ اورحق تلفی ہر مکتبہ فکر میں موجود ہے۔ لہٰذا ہمیں اس پر مل کر کام کرنا چاہیے۔ انسانی جانوں کو ہلاک کرنا کسی بھی مذہب میں جائز نہیں ہے اور نہ ہی کسی مذہب میں حق تلفی کی اجازت ہے۔ لہٰذا افہام و تفہیم کی راہ پیدا کرنی چاہیے اور مسلمانوں کو جہاں حقوق سے محروم رکھا گیا ہے، وہاں انہیں ان کا حق دلانے کے لیے تمام مکتبہ ٔ فکر کے لوگوں کو آگے آنا چاہیے۔
مگر عام طور پر مسلم تنظیمیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، بابری مسجد اور فرقہ وارانہ فسادات جیسے ایشوز کو مسلمانوں کے بنیادی مسائل سمجھتی ہیں اور اسی نقطے پر ذہن سازی کرتی ہیں؟
یہ ایسے مسائل ہیں، جن میں مسلمانوں کو الجھا کر رکھ دیا گیا ہے، ورنہ مسلمانوں کے سامنے ان کے علاوہ بے شمار بنیادی مسائل ہیں، جن کو ترجیحی بنیاد پر حل کرنے کی ضرورت ہے، جیسے تعلیمی، اقتصادی اور روزگار کے مسائل۔
مگر آپ کی تنظیم سمیت دیگر مسلم جماعتیں بھی بنیادی مسائل کی بہ نسبت اس مسئلے کو بڑے زور و شور سے اٹھاتی رہی ہیں؟
یہ جز وقتی ایشوز بھی ان کے منجملہ مسائل میں شامل ہیں۔ لہٰذا انہیں بھی سامنے لانا ضروری ہے، لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ تمام تنظیمیں انھیں چند ایشوز پر سمٹ کر رہ گئی ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسرے اہم مسائل دب کر رہ گئے۔ ملک کی تمام مسلم تنظیموں کو مسلمانوں کے حقوق دلانے کے لیے ایک ساتھ مل کر لڑنا چاہیے۔ دنیا کے ہر ملک میں اقلیت کو تحفظ دینے کے لیے کچھ خاص سہولت دی جاتی ہے اور یہی سہولت ہندوستان کے آئین میں بھی بحیثیت اقلیت مسلمانوں کو دی گئی ہے، مگر اس سہولت کا فائدہ انہیں نہیں مل رہا ہے، جس کے لیے منظم کوشش کی ضرورت ہے۔ لیکن بحیثیت مجموعی یہ کہنا غلط ہوگا کہ مسلم تنظیمیں مسلمانوں کے جو اصل مسائل ہیں، ان کو نہیںاٹھانا چاہتی ہیں۔ البتہ ان تنظیموں کے وسائل محدود ہیں اور وہ اپنے محدود وسائل کے ساتھ ان مسائل کی طرف توجہ دلاتی رہی ہیں۔ جنوبی ہند کی تنظیموں نے شمالی ہند کی بہ نسبت زیادہ کام کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنوبی ہند کی تنظیمیں مالی اعتبار سے زیادہ مضبوط تھیں۔ وہاں کارو بار کا رجحان بہت پہلے سے پایا جاتا ہے، لہٰذا ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بھی وسیع تھا، جبکہ شمالی ہند میں دینی تعلیم پر زیادہ توجہ دی گئی اور صنعت و معاشیات پر توجہ کم دی گئی۔
تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم پسماندگی کا سبب ہے؟
نہیں! بلکہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تقسیم وطن کا پریشر شمالی ہند پر زیادہ تھا، جس کی وجہ سے وہ معاشی استحکام کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ شمالی ہند میں تقسیم کے پریشر کا ہی نتیجہ تھا کہ اس طرف کے لوگوں نے جنوب کی بہ نسبت بہت زیادہ ہجرت کی۔
مسلم تنظیموں کے کام کی نوعیت کے بارے میں کچھ بتائیں؟
تنظیمیں اپنی حیثیت کے مطابق ادارے کھول رہی ہیں۔ مسلم بچوں کو تعلیمی وظیفہ، ٹیکنیکل تربیت اور سرکاری منصوبوں سے استفادہ کرنے کے لیے خصوصی مہم چلارہی ہیں۔
کیا آپ نے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے تعلق سے سچر کمیٹی رپورٹ کا مطالعہ کیا ہے؟ اگر ہاں، تو کیا آپ کو اس کے تجزیے سے اتفاق ہے؟
میں نے خود توپوری رپورٹ نہیں پڑھی ہے، لیکن جماعت اسلامی ہند نے اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے پوری رپورٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے خاص نکات ذمہ داروں کے علم میں لائے۔
آپ اس رپورٹ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
یہ رپوٹ مسلمانوں کی پسماندگی کا ایک پروف ڈاکیومنٹ ہے۔ اس رپورٹ سے پتہ چلا کہ کس رفتار سے تعلیم، روزگار اور معیشت میں مسلمانوں کا تناسب کم ہوا ہے۔ اسی رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلا کہ جو پارٹی جتنا سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہاں مسلمانوں کی حالت اتنی ہی زیادہ خراب ہے۔ مثال کے طور پر مغربی بنگال کو ہی لیں۔ یہاں 30 برس کانگریس اور 34 برس لیفٹ فرنٹ کی حکومتیں رہیں، مگر یہ ریاست مسلم پسماندگی میں اس رپورٹ کی روشنی میں سب سے آگے ہے اور ترنمول کانگریس کے دور میں بھی ابھی تک اس میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اس خراب حالت تک پہنچایا ہے۔ جو صنعتیں مسلمانوں کے ہاتھوں میںتھیں، انہیں ختم کر دیا گیا ہے یا ایسے حالات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ وہ صنعتیں دوسری کمیونٹی کے ہاتھوں میں چلی گئی ہیں، جیسے مراد آباد میں پیتل کا کام مسلمان کرتے تھے۔ پھر اس کام کو مشین سے انجام دیا جانے لگا۔ ظاہر ہے، اقتصادی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے مسلمان مشین خریدنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، لہٰذا غیر مسلموں نے ان مشینوں کو خریدا اور جو مسلم کاریگر تھے، انہوں نے ان کے یہاں نوکری کرلی۔ اس طرح جو پیشہ مسلمانوں کے لیے خاص تھا، اسی پیشہ کے مالک ہندو اور ان کے کاریگر مسلمان بن گئے۔ اسی رپورٹ کے ایک باب میں، جسے بعد میں حذف کردیا گیا، جیل میں مسلم آبادی کے تناسب کو دوسرے شعبوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ بتایا گیا تھا، جو کہ اس رپورٹ کے بعد کافی بڑھی ہے۔
مگر اس سلسلے میں گجرات سرکار کی تعریف کرنی ہوگی کہ وہاں محکمہ پولس میں 12 فیصد مسلمان ہیں، جو کسی دیگر ریاست میں نہیں ہیں۔
اگر کسی ایک یا دو شعبے میں مسلمانوں کو تناسب کے حساب سے نمائندگی دی گئی ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مجموعی وہاں مسلمانوں کی ترقی ہوئی ہے۔ فساد کے بعد تو یہاں مسلمانوں کا کارو بار ٹھہر سا گیا ہے۔ تاجرین پر خوف طاری ہے۔ مسلمانوں کی ترقی تو تبھی سمجھی جائے گی، جب تعلیم، روزگار اور دیگر شعبوں میں بھی ان کی نمائندگی تناسب کے اعتبار سے ہو۔
مگر اعد ادو شمار بتاتے ہیں کہ دیگر ریاستوں کی بہ نسبت گجرات کے مسلمان خوشحال ہیں اور ان کی تجارت کا تناسب بھی بہتر ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے، تو اس میں نریندر مودی کا کوئی کمال نہیں ہے۔ وہاں تو ترقی پہلے سے ہی تھی، بلکہ 2002 میں گجرات فساد کے بعد ان کی ترقی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ موجودہ حکومت کی وجہ سے ترقی ہوئی ہے، سراسر غلط ہے۔
کشمیر میں شراب پر پابندی نہیں ہے، جبکہ گجرات میں شراب پر پابندی ہے۔ کیا آپ اس فیصلے پر نریندر مودی کو نہیں سراہیں گے؟
جو کام اچھا ہے، اس پر تعریف یقینا ہونی چاہیے۔ گجرات میں شراب بندی کا فیصلہ ایک اچھا قدم ہے۔
تو کیا آپ بی جے پی کی حمایت کرسکتے ہیں؟
بی جے پی مسلمانوں کے بارے میں واضح پالیسی لائے، مسلمانوں کو بطور اقلیت جو حقوق اور اختیارات و مراعات آئین میں دیے گئے ہیں، اس کے نفاذ کی یقین دہانی کرائے، تو اس کی حمایت کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے۔
نریندر مودی ملک کے وزیر اعظم بن جائیں، تو آپ کا قدم کیا ہوگا؟
بی جے پی کی موجودہ پالیسیوں کے ساتھ نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا ملک کے لیے اچھا نہیں ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کی بات ہے، تو کسی بھی پارٹی نے مسلمانوں کے لیے مخلصانہ کوشش نہیں کی؟ پھر بی جے پی سے ہی دوری کیوں؟
کوئی بھی سیاسی پارٹی ہو، کسی نے بھی مسلم مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ جہاں تک بی جے پی کی بات ہے، تو اس کے پاس مسلمانوں کے لیے کوئی واضح منشور نہیں ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہے۔
سچر کمیٹی کی سفارشات کی نفاذ کے تعلق سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی بیشتر سفارشات پر عمل درآمد ہوچکا ہے۔کیا حکومت کے اس دعوے پر آپ کو اطمینان ہے؟
حکومت کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ اس نے سچر کمیٹی کی بیشتر سفارشات کو نافذ کردیا ہے، مگر عملی طور پر کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔ جس دن مسلمانوں کی تعلیمی حالت بہتر ہوجائے گی، انہیں روزگار میں مناسب نمائندگی دی جانے لگے گی، انہیں آئین میں ملے تحفظ کا واقعی نفاذ ہوجائے گا اور اس کے اثرات نظر آنے لگیں گے، تب سمجھا جائے گا کہ حکومت کا یہ دعویٰ صحیح ہے، جو فی الوقت نظر نہیں آرہا ہے۔
ایکوئل اپارچونیٹی کمیشن (Equal Opportunity Commission) کی سفارش کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
اس سفارش سے کوئی مدد نہیں مل سکتی ہے، کیونکہ اس سفارش کا فائدہ مسلمان نہیں اٹھا پائیں گے، کیونکہ جب ان میں تعلیم بہت کم ہے، تو وہ نوکری میں کامیاب کیسے ہوں گے؟ اگر حکومت واقعی مخلص ہے، تو مسلمانوں کو ایسے میدانوں میں، جہاں زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، وہاں انہیں روزگار کے مواقع دے، جیسے پولس اور فوج میں کم تعلیم پانے والوں کے لیے بھی مواقع ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں وہاں بھی روزگار کے مواقع نہیں ہیں یا نہیں کے برابر دیے جاتے ہیں۔
آزادی کے بعد مسلمانوں کی پسماندگی مستقل طور پر بڑھی ہے، جبکہ ملک میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے حکومتیں کیں اور متعدد مسلم تنظیمیں بھی سرگرم عمل رہیں۔ پھر مسلمان پسماندگی کی طرف اتنا کیوں بڑھتا گیا کہ وہ نیو بدھسٹوں کو بھی مات دے گیا اور اسے ریزرویشن کی نوبت تک آگئی؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کی معاشی اصلاحات میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہیں اور مسلم تنظیموں کے وسائل بھی محدود ہیں۔ لہٰذا وہ زیادہ کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ آئینی اعتبار سے جو ریزرویشن انہیں دیا گیا ہے، اس میں بھی شفافیت نہیں ہے، ایسے میں اس طبقے کاپسماندہ ہونا تو یقینی ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کو ریزرویشن دیے جانے کے تئیں آپ کی کیا رائے ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ جو ریزرویشن دیا گیا ہے، اس میں دھوکہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ ریزرویشن معاشی بنیاد پر ملنا چاہیے، مذہب اور ذات برادری کی بنیاد پر نہیں۔
آزاد ہندوستان میں بحیثیت مجموعی ملک کی ترقی اور خصوصی طور پر مسلمانوں کے امپاورمنٹ کے لیے جماعت نے مختلف شعبۂ حیات میں کیا کام کیا ہے؟
جماعت نے مختلف شعبوں میں جو کام کیے ہیں، وہ نمایاں ہیں۔ ان سے ملک و ملت کے سبھی لوگ بلا تفریق مذہب و ملت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اس کی رپورٹ برائے جنوری 2011 تا دسمبر 2012 کے مطابق، اس نے ملک بھر کی مختلف ریاستوں میں تعلیم کے میدان میں 468 اسکولس، 37 کالجز، 697 مراکز فاصلاتی تعلیم، 714 مراکز بالغان و بالغات، 47 مدارس، 457 مکاتب اور 1217 جز وقتی مکاتب قائم کیے ہیں۔ نیز 52 ہزار 313 افراد کو تعلیمی امداد اور 48 ہزار 838 افراد کو مستقل وظائف دیے گئے۔ اسی طرح خدمت خلق میں 11 اسپتال اور 89 کلینک کے قیام کے ساتھ ساتھ 60 ہزار 657 افراد کو طبی امداد، 93 ہزار 832 افراد کو وقتی امداد دی گئی۔جماعت اسلام کے صحیح تعارف کے علاوہ بین المذاہب ڈائیلاگ کا بھی اہتمام کرتی ہے، تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے۔
آج ملک کی سیاسی پارٹیوں میں ووٹر کا اعتماد و یقین کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی آدھی سے کم آبادی اپنے ووٹ کا استعمال ہی نہیں کرتی ہے۔ جمہوریت کے لیے خطرناک اس رجحان پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ کیا حال میں ’’ رائٹ ٹو رجیکٹ‘‘ کے فیصلے سے اس سلسلے میں کوئی فرق پڑے گا؟
ووٹ ہر شہری کا حق ہے اور اسے ضرور استعمال کرنا چاہیے۔ ووٹ کا استعمال کرکے صحیح نمائندے کو لیجسلیچرس تک بھیجا جا سکتا ہے۔ جہاں تک رائٹ ٹو رجیکٹ کی بات ہے، تو یہ فی الوقت بہت مؤثر ثابت نہیں ہوگا، لیکن منجملہ یہ ایک اچھی شروعات ہے اور ووٹروں کو مزید ایک حق ملا ہے کہ وہ اپنے ناپسندیدہ امیدوار کو مسترد کرسکیں۔
جہاں تک لیجسلیچرس میں عوام کی نمائندگی کا سوال ہے، معروف سماجی کارکن انا ہزارے کا کہنا ہے کہ آئین میں سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی کا کوئی حوالہ اورذکر نہیں ہے اور 1951 میں پیپلز ریپریزینٹیشن ایکٹ (Peoples Representation Act) کے ذریعے یہ غیر آئینی طور پر نمائندگی کی دعویدار بن بیٹھیں۔ لہٰذا انہیں تحلیل کرکے عام عوام کو خود نمائندگی کا اختیار ملنا چاہیے۔ اسی ضمن میں متناسب نمائندگی طریقۂ انتخاب کا بھی ذکر آتا ہے۔ اس پورے ایشو پر آپ کی رائے کیا ہے؟
میں نہیں سمجھتا کہ سیاسی پارٹی کے بغیر حکومت چلائی جاسکتی ہے، لیکن اگر واقعی آئین میں سیاسی پارٹی کا تذکرہ نہیں ہے، تو پھر ترمیم کے ذریعہ اس کو شامل کرنا چاہیے یا پھر کوئی ایسا متبادل ہو، جو اس بات کو یقینی بنائے کہ عوام اپنا نمائندہ ایوان تک براہ راست بھیج سکیں۔ انا ہزارے جو کہتے ہیں، اس کی شکل میرے سامنے واضح نہیں ہے۔ اگر شکل بنتی ہو، تو اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔
مسلمان لوک سبھا کی تقریباً نصف سیٹوں پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں ہونے کے باوجود بے وزن کیوں ہے؟ سیاسی طور پر ڈِس امپاورڈ کیوں ہے؟ آپ کے خیال میں اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
آپ کس طرح یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان نصف سیٹوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں، جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق، ان کی کل 13.4 فیصد (18 کروڑ) آبادی ہے اور غیر مسلموں کی آبادی 80.5 فیصد ہے، تو 13.4 فیصد 80.5 فیصد پر اثر انداز کیسے ہوسکتا ہے؟
کیونکہ غیر مسلموں کا ووٹ بٹ جاتا ہے۔
ووٹ تو مسلمانوں کا بھی بٹتا ہے اور آپ اس کو روک بھی نہیں سکتے۔ ہاں، کچھ سیٹیں ہیں جہاں وہ اثر انداز ہوسکتے ہیں، مگر وہاں بھی وہ اپنی اس پوزیشن سے استفادہ نہیں کرپاتے ہیں، کیونکہ وہ پارٹیوں میں بٹ جاتے ہیں۔ اگر ملک کے تمام مسلمان متحد ہوجائیں، تو پھر واقعی 13.4 فیصد سیٹوں پر اثر انداز ہو جائیں گے۔
عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو قومی مسائل میں دلچسپی نہیں ہے۔ وہ صرف اپنے مسائل کے بارے میں ہی سوچتے ہیں۔
یہ کہنا سراسر غلط ہے، بلکہ سچائی یہ ہے کہ پارٹیاں خود بھی نہیں چاہتی ہیں کہ مسلمان قومی مسائل میں دلچسپی لیں، کیونکہ اگر وہ قومی مسائل میں دلچسپی لیں گے، تو ایسی صورت میں انہیں قومی ترقی میں تناسب کے اعتبار سے شیئر دینا پڑے گا، جبکہ وہ مسلمانوں کی ترقی کو کبھی نہیں چاہیں گی اور یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو مین اسٹریم سے دور رکھتی ہیں اور چونکہ حکومت انہیں مین اسٹریم سے دور رکھنا چاہتی ہے، لہٰذا مسلمانو ں کو خود ہی اپنے بارے میں سوچنا پڑتا ہے اور وہ اپنے بارے میں سوچتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر یہ الزام لگتا ہے کہ وہ صرف اپنے مسائل میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔
حکومت میں مسلم نمائندوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
حکومت ایسے مسلم لیڈر کو منتخب کرتی ہے، جو نام کا ہو، کام کا نہیں۔ اگر حکومت واقعی مسلم نمائندگی چاہتی ہے، تو ایسے فرد کو نمائندگی دے، جسے کم سے کم 15 فیصد مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو۔ مجھے یاد ہے کہ 2002 کے گجرات فساد کے بعد ایک مسلم وفد وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے ملنے گیا۔ اس وفد میں میں بھی تھا۔ بات چیت کے دوران ایک موقع پر جب میں نے واجپئی جی سے کہا کہ شاہنواز حسین آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں، تو اس پر انہوں نے فوراً کہا کہ شاہنواز آپ کے نہیں، پارٹی کے آدمی ہیں۔ اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں میں جو مسلمان ہیں، وہ مسلمانوں کے فائدے کے لیے نہیں، بلکہ پارٹی کے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں۔
ویلفیئر پارٹی الیکشن میں جن مقاصد کو لے کر کھڑی ہوئی ہے، کیا جماعت اس کی تائید کررہی ہے؟
جماعت اس کی تائید کرتی ہے، مگر یہ تو ابھی بہت ہی ابتدائی مرحلے میں ہے۔
مسلمانوں کو سیاسی ڈِس امپاورمنٹ سے نکلنے کے لیے کیا کرنا ہوگا؟
سیاسی ڈِس امپاورمنٹ سے باہر نکلنے کے لیے سیاسی شعور بیدار کرنا ہوگا۔ جماعت اکتوبر 2013 تا جنوری 2014 پورے ملک میں اس تعلق سے سیاسی بیداری مہم چلا رہی ہے۔ اس میں چار اہم مسائل: کرپشن، فرقہ وارانہ فسطائیت، سرمایا دارانہ استعمار اور شہری حقوق کو فوکس کیا جارہاہے، تاکہ ملک کو درپیش ان خطرات کے سلسلے میں عوام بیدار ہوں اور انتخابات میں انہیں اپنا ایجنڈا بنائیں۔
کرپشن کے تعلق سے جماعت کا کیا موقف ہے؟ اناہزارے کی کرپشن مخالف مہم کے بارے میں یہ کیا سوچتی ہے؟
کرپشن کی کسی بھی مہذب سماج میں اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اظہار کیا کہ کرپشن و دیگر سماجی برائیاں معاشرہ میں خدا اور مذہب سے دوری کی وجہ سے فروغ پاتی ہیں۔ لہٰذا اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انا ہزارے نے کرپشن مخالف جو مہم شروع کر رکھی ہے، جماعت یقینا اس کے حق میں ہے۔ انا نے شروع میں تو مرکز جماعت آنے کا پروگرام بنایا تھا، مگر کسی وجہ سے نہ آنے کی صورت میں ایک وفد کو بھیجا تھا۔ اس وفد سے بھی میں نے یہی کہا تھا کہ جن لوک پال جیسا قانون ضروری ہے، مگر صرف اسی سے کام نہیںچلے گا۔ اس کے لیے خدا کے وجود پر تصور ضروری ہے۔ خوف خدا ہی سے لینے اور دینے والے دونوں کے ہاتھ رک سکتے ہیں۔ ازالۂ کرپشن کو تو جماعت نے اتنی اہمیت دی ہے کہ متعدد ریاستوں میں اس تعلق سے باضابطہ بیداری مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

Monday, 28 October 2013

Jamaat-e-Islami Hind condemns Patna blast

Jamaat-e-Islami Hind  condemns Patna blast, says it could be handiwork of communal forces

New Delhi, 28 Oct. 2013: Jamaat-e-Islami Hind has strongly condemned the serial blasts in Patna today. While expressing grief at the loss of reportedly five human lives, JIH has demanded stringent action against the culprits and those who conspired to disturb the peaceful atmosphere in the state of Bihar.

Mr. Nusrat Ali, Secretary General, Jamaat-e-Islami Hind, has expressed apprehension that communal forces, after disturbing the atmosphere in Western Uttar Pradesh, might have now moved to Bihar to create an environment of fear and terror for electoral gains.

Mr. Nusrat Ali urged all state governments including Bihar and the central government to take all steps for protection of democratic and constitutional values and to maintain peaceful situation for the upcoming elections. He also appealed to the masses to play a responsible role for the protection of larger interests of the nation and maintaining mutual love and communal harmony.

Saturday, 26 October 2013

Jamaat-e-Islami Hind to build 200 houses for Muzaffarnagar riots victims



Report by Anwarulhaq:
New Delhi: Jamaat-e-Islami Hind has decided to build 200 houses for Muzaffarnagar riots victims.

 A delegation led by Jamaat-e-Islami Hind Secretary General Nusrat Ali visited Muzaffarnagar’s relief camps, Loi, Budhana, Shahpur and Basi Kalan on 23 Oct. 2013 and assessed the relief and rehabilitation works and decided to build 200 houses for riot victims.
The Jamaat’s relief committee has completed detail survey of all riots victims. According to report, total 113 persons were killed and 30 others are missing in the communal riots in Muzaffarnagar and adjoining districts. In 113 killings, 97 are Muslims and 16 are Hindus. 
Mr. Shafi Madani Jamaat’s all India Secretary, Mr. T. Arif Ali Kerala Jamaat President, Maulvi Mamoni from Kerala, Maulana Inamullah Islahi UP (West) President, Mr. Rafiq Ahmad secretary Human Welfare Foundation, Delhi, Mr. Aalauddin, in-charge of the Jamaat’s Muzaffarnagar relief committee, Mr. Aale Nabi,  Jamaat’s UP state Advisory Council member, and Anwarulhaq of Jamaat’s Media Dept., Headquarters, New Delhi, were part of the delegation.
The delegation met with the victims, living in relief camps and listened their problems and sufferings. It also met with relief camps in-charges and assured them for providing all  basic needs for affected persons. Mr. Nusrat Ali while talking with the victims also assured them for establishing temporary schools in the relief camps for the students who are facing drop out like situation due to displacement.     
Jamaat is erecting one thousand water-proof tents which will save camps residents from cold and rain. It also provided two thousands beds and quilts (Lihaf). A Medical camp was set up in Loi relief camp, comprising of doctors of Muslim Education Society Medical College, and volunteers of Ideal Relief Wing Kerala. The medical camp is giving free services, medicines and treatment for riot victims. A Mobile Medical van is also giving 24 hour free services for all the relief camps.  
Mr. Nusrat Ali while addressing a press conference held at Budhana near Loi camp, demanded the government to take quick step for rehabilitating riots victims and ensure their returning safely back to their original homes. He said that government should give adequate and maximum compensations for all the loss  which victims suffered. He also emphasized for good mutual relations among deferent communities. “It is the responsibility of the government as well as peaceful people to minimize the widening gap between Muslims and Jats for creating good atmosphere, and religious leaders of both the communities should come out to uphold good mutual relations,” he added.

Sunday, 13 October 2013

Cyclone Phailin hits 90 lakh people; 23 dead, lakhs of homes damaged



 
GOPALPUR/SRIKAKULAM: Cyclone Phailin on Sunday left a trail of destruction knocking down lakhs of homes affecting nearly 90 lakh people and destroying paddy crops worth about Rs 2,400 crore, but Odisha and Andhra Pradesh escaped from widespread loss of life.

As the largest evacuation efforts in the country's recent history helped keep casualties to the minimum, reports from the two states tonight said that 23 people died, all but two of them in Odisha. Most of the casualties were caused by wall collapse, uprooted trees and in floods.

Communication links were vastly disrupted by the strong winds that went upto a speed of 220 kmph when the "very severe" cyclonic storm crossed the coast near Gopalpur last night and weakened before turning into a depression. Ganjam district in Odisha bore the brunt of the storm.

According to IMD tonight, Phailin weakened further turning into "deep depression" with wind speed of 45-55 kmph and currently lay over northern Chhattisgarh, parts of Orissa and Jharkhand. According to M Mohapatra, scientist (Cyclone Warning Division) of the meteorology department, the "cyclonic storm" has now turned to "deep depression" with the wind speed of 45-55 kmph. It currently lays over northern Chhattisgarh, parts of Orissa and Jharkhand. It is expected to weaken further late tonight, he said.

A Panama-registered cargoship M V Bingo carrying iron ore was reported to have sunk in rough seas in the impact of the cyclone off the coast of West Bengal, but the crew were spotted in a lifeboat by a Coast Guard Dornier aircraft.

Authorities in Odisha evacuated nearly nine lakh people, the largest in recent history, ahead of the storm to cyclone shelters and public buildings like schools to avoid a repeat of the monstrous 1999 super cyclone in which nearly 10,000 people were killed.

"We are on the whole quite satisfied with the type of evacuation that was done," Vice chairman of National Disaster Management Authority M Shashidhar Reddy said. In Gopalpur, where the storm struck first, "almost 90-95% people had been evacuated".

Defence and paramilitary personnel were deployed to carry out relief and rehabilitation measures and restoring infrastructure badly affected by the storm.

The IMD earlier in the day said Phailin has weakened into a cyclonic storm with wind speed between 60 and 70 kmph.

Odisha chief minister Naveen Patnaik said the primary aim was to minimize loss of human lives and they have successfully managed to do so. "Property to the tune of several crores has been damaged...Rehabilitation will now be done."

Giving details of the devastation, Odisha revenue minister S N Patro said 14,514 villages in 12 districts have been affected, hitting a population of 80,53,620.

Over 2.34 lakh houses have been damaged and more than 8.73 lakh people evacuated.

Over five lakh hectares of standing crops have been destroyed by the gushing waters causing an estimated loss of Rs 2,400 crore, he said.
Power situation under control: Power ministry

There were some disturbances in electricity transmission due to cyclone Phailin which struck Odisha and Andhra Pradesh last night, but were attended to in time, the power ministry said.

"Required load and generation were managed in a balanced manner so as to secure stable transmission frequency," it said in a statement.

In Andhra Pradesh, the load was reduced to about 9,000 megawatt (MW) against normal demand of 10,000MW and in Odisha, it was 600MW against the normal demand of 2800MW.

Based on IMD information, extensive prior preparations were undertaken to tackle the effects of cyclone Phailin in the context of power requirements," it said.

Advance preparations were made to manage generation and load balance for unhindered and secure grid operation. Power stations in the region were also monitored, it further added.

As required load and generation were managed in a balanced manner so as to secure stable transmission frequency.

Also three Emergency Restoration Systems (ERS) of PGCIL were put on standby readiness in AP and Odisha for quick deployment in the event of damage.

The National Load Dispatch Centre under the control of POSOCO was operating 24 hrs and in touch with the regional dispatch centres of POSOCO and the state load dispatch centre (SLDC).

A high level team headed by additional secretary in the ministry was coordinating all the steps required including 2 hourly reports to all concerned, the statement further added.