Thursday, 26 June 2014

Reservations in Education and Employment are short of recommendations but decision in right direction.



Reservations in Education and Employment are short of recommendations but decision in right direction.
Mumbai.
We welcome the decisions of Maharashtra government to provide reservation in Education and employment to backward communities. Although its short of what was recommended by Rangnath Misra Commission's 10% and Dr.Mahmoodur Rahman Committes's 8% to Muslims but its in the right direction.
The reservation is well under the fundamental right that is defined under article 15(4) and 16(4) of the Constitution of India i.e. Right to Equality.
We urged the government to consider reservations to Muslims in housing as recommended by the Dr.Mahmoodur Rahman Committee.
Still a lot has to be done to provide justice to the Muslim Community
Aslam Gazi.
Secretary, JIH Maharashtra.

Wednesday, 11 June 2014

وہ مردِ دُرویش جس کو حق نے دیے تھے انداز خسروانہ


حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر

خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کی زندگیاں حفیظ میرٹھی کے اس شعر کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
3؍جون2014ء ؁ کو علی الصبح داعی اجل کو لبیک کہہ کر اپنے رب کے حضور پہنچنے والی علاقہ مراٹھواڑہ کی سیماب صفت شخصیت مرحوم مولانا عبدالقیومؒ نے ایسی ہی جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری۔
ایک معزز مشائخ گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس ہستی نے مولانا سید مودودیؒ کے افکار و نظریہ کو دیکھا پرکھا تو بلاشبہ جماعت اسلامی کے اقامت دین کے مقصد کو حرزِ جاں بنالیا لیکن نصف صدی سے زائد عرصہ پر پھیلے ہوئے ان کے حرکیاتی و سیمابی کردار کے سلسلہ میں بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی کاوشوں اور جدوجہد کا دائرہ صرف جماعت اسلامی کی سرگرمیوں تک محدود نہیں رہا بلکہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے علاقہ کے پورے مسلم معاشرہ اور عام انسانی سماج کو محیط رہا۔ جو نوجوان اپنے مقصد نصب العین سے وابستگی اور اس کی راہ میں جاں فشانی خواہ کسی بینر تلے کرتے ہوں ان کے لیے مولانا عبدالقیومؒ کی جدوجہد سے بھرپور زندگی یقیناًایک زبردست مہیمز کا کام کرتی ہے۔
مولانا عبدالقیومؒ نے 28؍اپریل 1932ء ؁ میں جالنہ کے آستانۂ قادر آباد کے مشائخ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے جداعلیٰ حضرت شاہ عالمؒ جو عبد عالمگیری 1650ء ؁ لاہور سے برہان پور اپنے مرشد کے پاس آبسے تھے اور نقل مکانی کرتے کرتے جالنہ میں منتقل ہوئے اور مختلف خدمات کے عوض اورنگ زیبؒ سے انعام میں بڑی اراضی پائی تھی۔ آپ کے والد حسین بن محی الدین تجارت کے ساتھ درگاہ اور خانقاہ کے انتظامات دیکھتے تھے۔ اس طرح آپ کے خاندان میں ابتداء ہی سے دعوت و تبلیغ کا مشن جاری تھا۔ ایک اہم بات یہ کہ درگاہ اور خانقاہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اس خاندان میں بدعات کا گزر نہ تھا۔ تایا حضرت اشرف علی تھانویؒ سے بیعت تھے۔ مولانا عبدالقیوم صاحب کی والدہ کی روایت کے مطابق ان کے تایا حضرت نے محلے میں بٹھائے جانے والے تعزیہ کو جلا دیا تھا۔
جن شخصیات کو آگے چل کر ملت کے درد کا درماں بننا ہوتا ہے ان میں سے اکثر ابتداء ہی میں سخت حالات کی بھٹی میں تپائی جاتی ہیں۔ مرحوم کے ساتھ بھی یہ ہوا تھا۔ مولانا ابھی آٹھویں جماعت کے طالب علم ہی تھے کہ سقوط حیدرآباد کے ہنگامے شروع ہوئے۔ فوج نے یلغار کی اور آپ کے خاندان کے کاروبار اور مکانات لٹ کر تباہ ہوگئے۔ فوج کے بعد ہوم گارڈس نے ظلم ڈھایا۔ یہ کانگریس کے نوجوانوں کی تنظیم تھی جو گھیراؤ کرکے لوگوں کو پولس کے حوالے کرتی تھی اور برائے نام کیسیس چلنے کے بعد سزائیں ہوتی تھیں۔ ستمبر 1948ء ؁ میں مولانا بھی گرفتار کرلیے گئے جو اس وقت ہشتم جماعت کے طالب علم تھے۔ رہائی کے بعد حالات اتنے ابتر تھے کہ حوصلوں کی برقراری اور اہل خانہ کی کفالت ہی کے لالے پڑ گئے تھے لہٰذا یہ اول ترجیح کا محاذ بن گیا۔ آپ کے بڑے بھائی عبدالستار صاحب نے بھی حالات کو سنبھالا لیکن کوشش کے باوجود مولانا کی رسمی تعلیم جاری نہ رہ سکی اور مولانا نے اپنا باقی مطالعہ قرآن و حدیث اور سیرت بعد کے مرحلوں میں مکمل کیا تھا۔
مولاناؒ رسمی تعلیم جاری نہ رکھ سکے تھے لیکن ادب، تاریخ، اسلامیات اور شعر و شاعری سے شغف تھا۔ دور طالب علمی ہی میں مسدس حالی، شاہ نامۂ اسلام ، علامہ راشد الخیری کے اصلاحی ناول، مولانا ابوالکلام آزادع کے مضامین ، سیرت کمیٹی لاہور کے مضامین نیز غالب اور اقبال کے کلام کو پڑھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ وہ عربی ادب میں صرف ونحو اور مجائن الادب جیسی کتابیں اختیاری مضمون کے تحت مکمل کی تھیں جس سے بعد میں مطالعہ قرآن و حدیث میں انہیں خوب مدد ملی۔
جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیوں میں آپ کی شرکت 1951ء ؁ سے ہونے لگی تھی۔ مولانا مودودیؒ کی معرکۃ الآرا کتاب ’’سیاسی کشمکش‘‘ آپ نے اس وقت پڑھی جب آپ ششم جماعت کے طالب علم تھے اور کتاب کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے تھے۔ پھر آگے چل کر جس کتاب نے مولانا کو اقامت دین کی اس عظیم الشان تحریک کا حرکیاتی کردار بنادیا وہ تھی ’’اساس دین کی تعمیر‘‘ جس کے بارے میں مولانا نے خود گواہی دی تھی کہ انہوں نے اس کتاب کو تقریباً 25؍مرتبہ پڑھا۔
مولانا عبدالقیومؒ کی جماعت اسلامی سے بڑھتی دلچسپی کو دیکھ کر ان کے خاندان کے افراد کو تشویش ہوئی۔ آپ کو اس چیز سے باز رکھنے کے لیے نقل مکانی کرائی گئی۔ کبھی فلور مِل ڈال کر تو کبھی زراعت میں مشغول کرکے جماعت سے وابستگی کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ کا فیصلہ کہ پیڑ پودوں کی نگہبانی کے بجائے آپ سے انسانی صلاحیتوں کی آبیاری اور انہیں دین حنیف کی سربلندی کے لیے تیار کرنے کا کام لینا تھا، آپ نے اپنے آپ کو تحریک اسلامی کی سرگرمیوں کے لیے یکسو کرلیا۔
تحریک اسلامی سے وابستگی کے وقت آپ کے حالات نہایت سنگین تھے۔ ماحول بھی سازگار نہ تھا لیکن مولانا نے اس موقع پر جس حوصلہ کا اظہار کیا وہ انہی کے ان اشعار سے جھلکتا ہے۔
جینے والے موت سے گھبرا گئے
مرنے والے زندگی پہ چھا گئے
اہل ساحل بہہ گئے ساحل کے ساتھ
ڈوبنے والے کنارے پا گئے
ایک اور قطعہ میں مولانا کا انداز ملاحظہ کیجئے۔
فرطِ غم میں مسکرانا آگیا
اپنی بگڑی خود بنانا آگیا
انقلابِ دہر تیرا شکریہ
زہر کو امرت بنانا آگیا
مولانا عبدالقیومؒ 1960ء ؁ میں رکن جماعت ہوئے اور رکنیت کے ساتھ اورنگ آباد کے ناظم ضلع اور کچھ عرصہ بعد کئی اضلاع پر مشتمل علاقے کے ناظم ہوئے۔ یہ ذمہ داری کم و بیش تیس سال آپ نے نبھائی۔ 1990ء ؁ تا 1995ء ؁ مولانا جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے امیر رہے۔ 1995ء ؁ تا 2003ء ؁ مرکز جماعت میں معاون قیم جماعت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اس عرصہ میں ابتداء میں ریاست کی شوریٰ کے رکن رہے پھر جماعت کی اعلیٰ ترین باڈی مجلس نمائندگان اور پھر مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ آخری ایام اور پیرانہ سالی کے باوجود مولانا کے حوصلے نوجوانوں کی طرح بلند تھے اور مطالعہ، تصنیف و تالیف ، رفقاء سے ملاقات ، تبادلہ خیال اور رہنمائی کا کام جاری تھا اور جماعت کے مختلف ٹرسٹ اور باڈیز میں آپ کی خدمات سے استفادہ کیاجاتا تھا۔
علاقے اور ریاست میں مختلف موضوع پر نتیجہ خیز کاوشوں کے علاوہ مولانا نے مرکزی سطح پر معاون سکریٹری جنرل کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے مختلف خدمات انجام دیں۔ یہاں بھی آپ کی حرکت و عمل کی بھرپور زندگی اس تصویر کے مصداق تھی کہ
بہت سے کام ہیں مردان حُر کو جہاں میں
مختلف شعبۂ جات کی ذمہ داریوں کے علاوہ آپ قومی سطح پر فورم فار ڈیموکریسی اینڈ کمیونل امیٹی (FDCA) کے سکریٹری بھی رہے۔ آپ نے اس فورم کے صدر جسٹس تارکنڈے اور دیگر عہدہ داران جسٹس راجندر سچر اور مچکند و بے جیسی شخصیات کے ساتھ مل کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا۔
اس جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ ملت کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، معزز شخصیات، اعلیٰ تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوان، سیاسی و سماجی کارکنان سے ربط و تعلق اور رفقائے جماعت کی خبرگیری مولانا کا خاص وصف رہا ہے۔ اسی طرح دیگر مذاہب اور سماج کے لیڈران سے آپ کے وسیع روابط تھے اور مولانا ان میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان وسیع روابط اور عوام میں نیچی سطح تک نفوذ کا استعمال آپ نے نفرتوں کے خاتمے اور باہمی میل و محبت، بھائی چارگی بڑھانے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قیام نیز دعوتی روابط کے لیے کیا۔ پھر ارضی و سماوی آفات ، فرقہ وارانہ کشیدگی فسادات کے موقع پر بے باکانہ نمائندگی اور ریلیف کے حوالے سے مولانا عبدالقیوم صاحب کا تعمیری اور فعال رول انشاء اللہ عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔
مولانا نے جماعت کی ذمہ داریوں کے علاوہ ملت کو دینی شناخت، مسلمانوں کے جان و مال کی حفاظت کے لیے قید و بند کی تکالیف برداشت کیں۔ 1948ء ؁ میں دورِ طالب علمی میں پہلی گرفتاری ہوئی پھر 1965ء ؁ میں ہندوپاک جنگ کے موقع پر DIR کے تحت گرفتار ہوئے اور پانچ ماہ قید رہے پھر 1966ء ؁ میں شہر میں فساد ہوا تو گرفتار کرلیے گئے اور دو ماہ بعد رہا ہوئے۔ اس موقع پر آپ پر یہ الزام تھا کہ ’’ تم مسلمانوں سے کہتے ہو کہ ان کو مسلمان ہی رہنا چاہیے‘‘۔ آپ نے تین ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے بے باکانہ حق کا اظہار کیا کہ ’’ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اپنی آخری سانس تک مسلمان رہنا چاہیے۔‘‘ پھر ایمرجنسی میں گرفتار ہوئے اور ناسک جیل میں قید کیے گئے۔ اس موقع پر جیل میں بھی دعوتی کام کیا۔ 1986ء ؁ میں بابری مسجد میں فرقہ پرستوں نے شیلاناس کروایا تو اورنگ آباد میں احتجاج ہوا۔ تیس قائدین کے ساتھ مرحوم کی بھی گرفتاری عمل میں آئی۔
ان قید و بند اور مصائب کے علاوہ مولانا نے دیگر کئی آزمائشوں اور نجی مسائل اور معاش کی تنگی کے باوجود راہِ حق پر اس طرح گامزن رہے کہ ان کے قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔ گھر میںآپ کی اہلیہ مستقل بیمار رہتیں اور کبھی گھر میں یہ بھی حالات آجاتے تھے کہ اپنے شیرخوار فرزند کے لیے دودھ نہیں خرید سکتے تو اُسے اس عمر میں روٹی بھگوکر کھلا دیا کرتے۔ پھر مخالفین اور حکومت کی جانب سے مستقل چیلنجز کا بھی جرأت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ ایسے سخت حالات میں بھی مولانا نے مستقل کاوش، مسلسل دورے، انتھک جدوجہد اور بے تکان کام کیا۔ اس عرصہ میں مولانا نے دیہات دیہات کا دورہ کیا۔ اندازہ ہے کہ آپ ہر ماہ اوسط 18دن دورے پر رہے۔ مولانا کے ماہانہ دوروں کے اوسط کو جوڑا جائے تو ان کی پچاس سالہ حرکیاتی زندگی میں تقریباً پچیس لاکھ کلو میٹر کے دورے کیے۔ سفر کی سہولتیں بعد میں میسر آئیں لیکن ابتداء میں کئی علاقوں میں آپ کے دورے سائیکل پر ہوا کرتے تھے۔ درمیان میں ندی پڑجاتی تو سائیکل کو ندی میں چلنے والے ٹوکروں میں رکھ کر ندی پار کرتے پھر دوبارہ سائیکل پر سوار۔ ساتھ میں روٹی بندھی ہوتی جہاں جیسا موقع ہوتا یہ روٹی نکالی جاتی اور پانی پی کر پھر سفر پر نکل پڑتے۔ کئی موقعوں پر پچاس تا ساٹھ کلو میٹر پیدل چل لینا مولانا مرحوم کے لیے کوئی دشوار کام نہ تھا۔
غرض مولانا نے راہِ خدا میں وقف عزیمت و قربانیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ سرشاری کے عالم میں جھوم کر عامر عثمانی کے ان اشعار سے اپنے ان ایام کی یاد تازہ کرتے تھے کہ
خوشا وہ دور بے خودی کہ جستجوئے یار تھی
جو درد میں سُرور تھا تو بے کلی قرار تھی
کسی نے زہر غم دیا تو مسکرا کے پی گئے
تڑپ میں بھی سکون تھا خلش بھی سازگار تھی
مولانا اپنی شخصیت کے ہمہ پہلو ارتقاء اور مومنانہ کردار کی تعمیر کے سلسلے میں برملا اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ صرف تحریک اسلامی کے مقصد اور نصب العین سے وابستگی کی دین ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کو کامیابی کی واحد شاہ راہ سمجھتی ہے۔ مولانا اپنی کاوشوں اور جدوجہد کا سہرہ جماعت اسلامی ہند جیسی اجتماعیت کے سر باندھتے ہیں جو تزکیہ نفس سے لے کر ریاست کی تشکیل کا واضح پروگرام رکھتی ہے۔ نئی نسل اور نوجوانوں کو اجتماعیت سے وابستہ ہوجانے کی تلقین کرتے ہوئے وہ اکثر کہتے تھے کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج دریا میں ہے بیرون دریا کچھ نہیں
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی خدمت کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ ان کی کاوشوں کا بہترین بدلہ دے، انہیں جنت کے باغوں میں داخل فرمائے۔ آمین

محمد عبدالجلیل (ناندیڑ)

اجلاس شوریٰ جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کی قرارداد

 
جماعت اسلامی ہند ریاست مہاراشٹر کی مجلس شوریٰ کا تین روزہ اجلاس ممبئی میں مورخہ 6تا 8جون2014ء  کو انجینئر توفیق اسلم خان (امیر جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر) کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں مجلس شوریٰ کے ارکان ڈاکٹر جاوید مکرم صدیقی ، پروفیسر سید عزیز محی الدین ، محمد اسلم غازی ، عبید الٰہی خان ، محمد سمیع ، شیخ متین،رضوان الرحمن خان، پروفیسر شیخ اظہر علی وارثی ، عبدالقدیر صدیقی ، محمد عبدالرؤف ، محمد عبدالجلیل، محمد ابراہیم خان شریک تھے۔ اجلاس میں درج ذیل قرارداد منظور کی گئیں۔
جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کی مجلس شوریٰ ملک میں عام انتخابات کے تحت ہونے والی تبدیلی کو ملک کے لیے اہم سمجھتی ہے۔ نئی سرکار کو یہ یاد دلانا چاہتی ہے کہ ملک کے عوام نے ترقی اور خوشحالی کی بنیاد پر انہیں اقتدار بخشا ہے۔ نئی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دستور کے اصول جیسے مساوات، بھائی چارہ، عدل و انصاف، مذہبی غیر جانبداری و رواداری کو ملحوظ رکھے اور سماج کے سبھی طبقات کا اعتماد حاصل کرے نیز تعمیر و ترقی میں سبھی طبقات کو منصفانہ طور پر شامل کرے۔ رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے بنیاد پر کسی طبقے کی محرومی ملک کی ترقی میں رکاوٹ ہوگی۔
یہ اجلاس تمام عوام سے اپیل کرتا ہے کہ تعمیری کردار کے ساتھ ملک کی ترقی میں اپنا حصہ اداکریں اور ان عناصر کی حوصلہ شکنی کریں جو ملک میں طبقاتی کشمکش، فرقہ وارانہ منافرت اور ظلم و ناانصافی کرنا چاہتے ہیں۔
یہ اجلاس امت مسلمہ کو یاد دلاتا ہے کہ وہ عزم و حوصلہ کے ساتھ ملک کی تعمیر میں اپنا رول ادا کرے۔ دستور میں دیے گئے حقوق اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانتوں سے فائدہ اُٹھائیں۔ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ کریں، اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہوں اور شہادت حق، عدل و انصاف کا قیام، کمزوروں اور محتاجوں کی مدد، محروم و مظلوم طبقات کے مسائل حل کرنے کے لیے آگے آئیں اور ملک کے سبھی انصاف پسند، اصحاب خیر کو تعاون دیں اور تعاون لیں۔
یہ اجلاس مسلمانوں سے یہ بھی کہنا چاہتا ہے کہ ان کی عبادت گاہوں ، مذہبی شعار، عزت و آبرو اور جان و مال کا تحفظ ان کا دینی فرض بھی ہے اور ملک کا دستور بھی ان کا یہ حق تسلیم کرتا ہے۔ اس لیے وہ چوکس رہیں اور شرپسندوں کے عزائم کو ناکام بنائیں۔
یہ اجلاس ملک کے تمام مسلمان بھائیوں اور خصوصاً ریاست کے تمام دینی تنظیموں ، اداروں، جماعتوں اور عامۃ المسلمین سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ملک کے بدلے ہوئے حالات میں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور فروعی معاملات میں اختلاف سے گریز کریں۔
اجلاس کا یہ احساس ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے متحدہ طور پر تھامے بغیر ہم اس ملک میں خیرامت کا کردار ادا نہیں کرسکتے۔
اس اجلاس کا احساس ہے کہ ملک میں BJPکی حکومت بننے کے بعد فرقہ پرست عناصر اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھنے لگے ہیں۔ چنانچہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ، اذانوں پر پابندی اور گؤ رکشا جیسے موضوعات چھیڑ دیے گئے ہیں۔ ہندوتووادی فیس بک پر شرارتاً چھترپتی شیواجی اور بال ٹھاکرے کی ناشائستہ تصاویر لگاکر ماحول کو خراب کررہے ہیں۔ فیس بک کی متذکرہ تصاویر کو بہانا بنا کر پونہ میں ظلم و زیادتی کے سابقہ ریکارڈ توڑے گئے اور دو تین روز کے اندر تقریباً 70مقامات پر ہنگامہ آرائیاں کی گئیں جن میں مساجد اور قرآن پاک کی بے حرمتی، بوڑھوں، عورتوں، بچوں ، ائمہ حضرات اور طلباء کو مارنا پیٹنا ، گھروں اور دکانوں کا توڑنا پھوڑنا اور کاروں، موٹر سائیکلوں کو جلانا سامنے آیا۔ پونا میں ایک کمپیوٹر انجینئر محسن شیخ کو شہید کردیا گیا۔
اس دوران پونہ کے پولس کمشنر ماتھُر صاحب چھٹیاں مناتے رہے، پولس اور حکومتی ادارے بے بس تماشائی بنے رہے۔ بھوکری مقام پر فائر بریگیڈ سے ملحقہ مسجد جلادی گئی لیکن فائر برگیڈ کا عملہ آگے بجھانے کے لیے آگے نہیں آیا۔ اجلاس اس صورتحال کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
ریاستی حکومت نے شہید محسن شیخ کے ورثہ کو 5لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے جو مرحوم کی سالانہ آمدنی سے بھی کم ہے۔ یہ اجلاس حکومت مہاراشٹر سے مطالبہ کرتا ہے کہ مہلوک کے ورثاء کو کم از کم 25لاکھ روپے دیے جائیں۔ نیز زخمیوں کا مفت علاج اور انہیں 5؍5؍لاکھ روپے دیے جائیں۔ نیز املاک کی نقصان کا سروے کراکے 100%ہرجانے ادا کیا جائے۔ محسن کو ہلاک کرنے والوں کو سزائے موت اور دیگر مجرمین کو سخت سزائیں دی جائیں۔
اجلاس کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ سوشل میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے کے واقعات کی مناسب روک تھام کی جائے۔


جاری کردہ : شیخ متین (سکریٹری جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر)

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں منظور قرار دادیں


جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا 4 روزہ اجلاس آج یہاں اختتام پذیر ہوا جس میں ملک و ملت کو درپیش مسائل پر تفصیل سے غور و خوص ہوا۔ اجلاس کی صدارت امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے فرمائی اور درج ذیل ارکان شوریٰ نے اس میں شرکت فرمائی۔
جناب محمد جعفر (نائب امیر جماعت)، جناب نصرت علی (قیم جماعت)، ڈاکٹر محمد رفعت ، انجینئر محمد سلیم، سید سعادت اللہ حسینی، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ، ڈاکٹر حسن رضا، جناب عبدالرقیب، جناب ایس امین الحسن ، مولانا ولی اللہ سعیدی ، جناب ٹی عارف علی، جناب اعجاز احمد اسلم ، جناب وی کے علی ،جناب مجتبیٰ فاروق ، جناب محمد احمد (مدعو خصوصی) جناب شفیع مدنی (مدعو خصوصی)اجلاس نے درج ذیل قرار دادیں منظور کیں۔
1. ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد ہونے والی تبدیلی کو ایک اہم سیاسی تبدیلی تصور کرتا ہے۔ اس تبدیلی سے جہاں ایک طبقے کا یہ خیال ہے کہ ملک میں ترقی اور بہتر انتظامیہ کا ایک نیا دور شروع ہوگا، وہیں بعض دوسرے طبقات اور گروہوں کو حکومت کے سرمایہ دارانہ رجحانات اور تہذیبی جارحیت کے عزائم کی وجہ سے تشویش بھی لاحق ہے ۔
مرکزی مجلس شوریٰ حکومت کو یہ یاد دلانا چاہتی ہے کہ اس نے بنیادی طور پر یہ ووٹ ترقی و خوشحالی ،بہتر اور کارگر انتظامیہ اور ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کے نام پر حاصل کیا ہے ۔ مجلس شوریٰ یہ توقع رکھتی ہے کہ این ڈی اے حکومت اپنے ان وعدوں اور اعلانات پر توجہ مرکوزرکھے گی اور ان اندیشوں کو غلط ثابت کرے گی جو بعض طبقات کو اس کے سلسلے میں لاحق ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ آزاد مملکت ہند کی تشکیل ایک جمہوری آئین اور شہریوں کے درمیان غیر جانبداری کے اصول کے تحت ہوئی ہے ۔ یہ آئین، مذہب ، قوم، ذات برادری ، علاقے ، زبان اور کلچر کی بنیاد پر کسی طبقے کے ساتھ بے جا امتیاز نہیں کرتا۔ تقسیم وسائل اور عدل و انصاف کے سلسلہ میں مملکت کے تینوں ستون ،مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ بھی امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ 65؍ برسوں کے دوران بر سر اقتدار طبقات سے اس سلسلہ میں کوتاہیاں سرزدہوتی رہی ہیں۔ شہریوں کے مختلف طبقات کو بہت سی شکایات بھی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہے، اس لئے امید رکھنی چاہیے کہ موجودہ حکومت بھی اسی نظام کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی اور ایسے اقدامات سے گریز کرے گی جن سے شہریوں کے مابین بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہوں یا کشمکش کا ماحول بن سکتا ہو۔
شوریٰ کا اجلاس ملک کے تمام شہریوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مل جل کر جدوجہد کریں۔ مذہب، علاقہ اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر اپنے درمیان تفریق نہ پیدا ہونے دیں۔ اپنی صفوں میں ایسے مفاد پرست عناصر کو در آنے کا موقع نہ دیں جو جذباتی نعروں سے معاشرہ کی خوشگوار فضا کو مسحوم کر کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہوں۔ سماج میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں جہاں امن و امان اور قانون کی حکمرانی ہو۔ کسی پر ظلم ہو تو سب مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کریں۔ اخلاق اور جمہوری اقدار کا پاس و لحاظ ہو اور سب کے حقوق کا احترام اور تحفظ ہو۔ ایک جمہوری ملک میں عوام کو بیدار اور متوجہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے منتخب کردہ نمائدے اور حکومت اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرے اور اگر وہ ملک کے دستور اور عوامی مفادات کے خلاف کوئی کام کرے تو جمہوری طریقوں سے اسے روکنے کی بھی کوشش کی جائے۔
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرتا ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی غیر متوقع یا سنگین کیوں نہ ہوں انہیں سنجیدگی ومتانت، ثابت قدمی اور دانشمندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔وہ اللہ کے دین کی حامل امت ہیں۔ اس کا اولین تقاضا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹیں، عہد بندگی کو تازہ کریں، اپنا بے لاگ محاسبہ کریں ، حق گوئی کو اپنا شعار بنائیں، ظلم کے آگے نہ جھکیں ، انصاف کے علم بردار بنیں اور جذباتی و انتہا پسند رویوں نیز مایوسی و شکست خوردگی سے بچیں ۔ اس کے لئے امت کو خود اعتمادی اور عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مسلمانوں ، ان کی تنظیموں اور رہنماؤں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلامی بنیادوں پر اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کریں، اخوت اسلامی کو فروغ دیں، انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے والی ہر کوشش سے دور رہیں ، مسلمانوں کے متحدہ فورمس اور اجتماعی اداروں کو موثر بنائیں اور کوشش کریں کہ متحد ہو کر ملک کے حالات پر اثر انداز ہو سکیں۔
مجلس شوریٰ کے نزدیک اس وقت ایک اہم کام یہ ہے کہ امت ملک کے سماجی اور سیاسی حالات پر مثبت اثرات ڈالنے کے لئے مربوط کوششوں کا آغاز کرے۔ مسلمانوں کو اپنے تحفظ اور دفاع تک محدود رہنے کے بجائے پورے ملک اور تمام باشندگان ملک کی فلاح و بہبود کے لئے فکر مند اور سرگرم عمل ہونا چاہیے اور اپنے عملی رویوں سے اسلام کی شہادت دینی چاہیے۔
2 . عالم اسلام کی صورت حال :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس عالمِ اسلام کے بعض ممالک میں جاری خون ریزی اور عالمی طاقتوں اوربعض مسلم حکومتوں کی ریشہ دوانیوں پر سخت تشویش اور دکھ کا اظہار کرتا ہے۔
مصر میں جس طرح ایک منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کیا گیا ، ہزاروں لوگوں کو قید کیا گیا اور جس طرح وہاں ایک سال سے قتل و خون کا بازار گرم ہے، وہ بلا شبہ مصر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اب نام نہاد عدالتوں کے ذریعہ چند منٹوں کی کارروائی کے بعد، سیکڑوں لوگوں کو پھانسی کی سزا ئیں سنائی جا رہی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے ظالم حکمرانوں کو عدل و انصاف اور انسانی جان کے احترام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصر کے صدارتی انتخاب کے فریب کو جس طرح عوام نے مسترد کیا وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ موجودہ حکمراں اور ان کی پالیسیاں عوام کو قابل قبول نہیں ہیں۔ اس کے باوجود عالمی طاقتوں کی خاموشی اور بے تعلقی شدید افسوسناک ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بعض ان مسلم ممالک کا رویہ ہے جو برادر کشی اور اسلام و اسلامی تحریکات کی بیخ کنی کے عمل میں پوری طرح شریک ہیں۔
انتخابا ت کا یہی ڈرامہ شام میں بھی رچا جا رہا ہے۔ شام کا ڈکٹیٹر ڈھائی لاکھ شہریوں کی دردناک ہلاکت ، پچاس لاکھ لوگوں کی دربدری اور دسیوں علاقوں کو پوری طرح تباہ و تاراج کرنے کے بعد اب اپنے مظلوم عوام سے ووٹ مانگنے جا رہا ہے۔ شام کے معاملہ میں بھی عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں نے جس طرح بے حسی اور مجرمانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جنیوا۔۲ مذاکرات کی ناکامی کے بعد شام کے صدر کو حکومت پر قائم رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ اجلاس کا مطالبہ ہے کہ شام کا حکمران فوری حکومت سے دستبردار ہو جائے اور اس کے لئے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ اپنا رول ادا کرے۔نیز شام کے مظلومین کو انصا ف دلانے اور ان کی باز آباد کاری کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔
اجلاس فلسطینی کاز کی حامی جماعتوں الفتح اور حماس کے حالیہ اتحاد اور متحدہ حکومت کے قیام پر خوشی و مسرت کا اظہار کرتا ہے اور اس حکومت کا استقبال کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اجلاس کو امید ہے کہ اس اتحاد کو دوام حاصل ہوگا اور فلسطین کی تنظیمیں اسی اتحاد و اتفاق کی اسپرٹ کے ساتھ اس کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے کوشش کریں گی۔ اجلاس دنیا کے تمام ممالک سے اور خود اپنے ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس نو تشکیل حکومت اور فلسطین کو ایک آزادریاست کے طور پر تسلیم کرے۔ اجلاس عرب لیگ اور عرب ممالک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے سابقہ وعدوں کے مطابق فلسطین کے مالی تعاون کے لئے آگے بڑھیں۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن بالخصوص جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر جس طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اجلاس اس کی پر زورمذمت کرتا ہے ۔ اجلاس کو امید ہے کہ عالمی عدالت میں بنگلہ دیش کے مظلومین کو انصاف ملے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد کی عوام نے جس طرح تائید کی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بنگلہ دیش کے ان اقدامات کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ اجلاس حکومت بنگلہ دیش سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس ظالمانہ رویہ سے باز آئے اور بین الاقوامی اداروں اوراپنے ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔
3 . خواتین پر بڑھتے مظالم:
مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس گزشتہ دنوں یوپی کے شہر بدایوں میں دو بچیوں کی آبروریزی اور بہیمانہ قتل کی پروزور مذمت کرتا ہے اور حکومت اتر پردیش سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ تمام تر قانون سازی، حکومتی اقدامات اور یقین دہانیوں کے باوجود خواتین کی عصمت دری اور اغوا کے واقعات اوران پر نوع بہ نوع مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ان معاملات میں قانون کے محافظین بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ محض قانون سازی اور وقتی اقدامات خواتین پر ہونے والے وحشیانہ مظالم کا سد باب نہیں کرسکتے، جب تک کہ ان تمام اسباب و محرکات کو سختی سے نہ کچلا جائے جو ان حوادث کے لیے ذمہ دار ہیں۔
خواتین پر ہونے والے جنسی مظالم کے لیے بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی ، فحاشی و عریانی ، مغربی تہذیب کی نقالی ،شراب و منشیات، لیوا ن ریلشن شپ اورایسی قانون سازی ہے جو آزادنہ جنسی تعلق کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں قحبہ گری کو قانونی جواز حاصل ہے جو ملک کی ایک بڑی انڈسٹری بن گئی ہے۔مختلف علاقوں سے غریب بچیوں کا اغوا کرکے جبراً انھیں اس جہنم میں جھونک دیا جاتا ہے۔
مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ جنسی بے راہ روی کے جرائم کو پروان چڑھانے میں پرنٹ ، الیکٹرانک میڈیا اور فلموں کے بعد انٹرنیٹ، میڈیا اور فحش سائٹس کا بہت بڑا رول ہے۔ مجلس شوریٰ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فی الفور جرائم کے ان تمام سوتوں اور سوراخوں کو بند کرے۔ میڈیا میں فحاشی و عریانی کی روک تھام کے لئے سخت قانون سازی کرے اور ہندوستان میں تمام پورن سائٹس اور فحش فلموں اور پروگراموں پر پابندی عائد کرے۔ مجلس شوریٰ خواتین کی تنظیموں اور سول سوسائٹی موومنٹ سے بھی اپیل کرتی ہے کہ محض احتجاجات اور سخت سزاؤں کا مطالبہ کافی نہیں ہے بلکہ اسے مذکورہ بالا تمام اقدامات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔