حیات جس کی امانت تھی اس کو لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلا کر
خوش نصیب ہیں وہ ہستیاں جن کی زندگیاں حفیظ میرٹھی کے اس شعر کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔
3؍جون2014ء کو علی الصبح داعی اجل کو لبیک کہہ کر اپنے رب کے حضور
پہنچنے والی علاقہ مراٹھواڑہ کی سیماب صفت شخصیت مرحوم مولانا عبدالقیومؒ
نے ایسی ہی جدوجہد سے بھرپور زندگی گزاری۔
ایک معزز مشائخ گھرانے سے تعلق رکھنے والی اس ہستی نے مولانا سید مودودیؒ
کے افکار و نظریہ کو دیکھا پرکھا تو بلاشبہ جماعت اسلامی کے اقامت دین کے
مقصد کو حرزِ جاں بنالیا لیکن نصف صدی سے زائد عرصہ پر پھیلے ہوئے ان کے
حرکیاتی و سیمابی کردار کے سلسلہ میں بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی
کاوشوں اور جدوجہد کا دائرہ صرف جماعت اسلامی کی سرگرمیوں تک محدود نہیں
رہا بلکہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے علاقہ کے پورے مسلم معاشرہ اور عام
انسانی سماج کو محیط رہا۔ جو نوجوان اپنے مقصد نصب العین سے وابستگی اور اس
کی راہ میں جاں فشانی خواہ کسی بینر تلے کرتے ہوں ان کے لیے مولانا
عبدالقیومؒ کی جدوجہد سے بھرپور زندگی یقیناًایک زبردست مہیمز کا کام کرتی
ہے۔
مولانا عبدالقیومؒ نے 28؍اپریل 1932ء میں جالنہ کے آستانۂ قادر آباد کے
مشائخ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ کے جداعلیٰ حضرت شاہ عالمؒ جو عبد
عالمگیری 1650ء لاہور سے برہان پور اپنے مرشد کے پاس آبسے تھے اور نقل
مکانی کرتے کرتے جالنہ میں منتقل ہوئے اور مختلف خدمات کے عوض اورنگ زیبؒ
سے انعام میں بڑی اراضی پائی تھی۔ آپ کے والد حسین بن محی الدین تجارت کے
ساتھ درگاہ اور خانقاہ کے انتظامات دیکھتے تھے۔ اس طرح آپ کے خاندان میں
ابتداء ہی سے دعوت و تبلیغ کا مشن جاری تھا۔ ایک اہم بات یہ کہ درگاہ اور
خانقاہ سے متعلق ہوتے ہوئے بھی اس خاندان میں بدعات کا گزر نہ تھا۔ تایا
حضرت اشرف علی تھانویؒ سے بیعت تھے۔ مولانا عبدالقیوم صاحب کی والدہ کی
روایت کے مطابق ان کے تایا حضرت نے محلے میں بٹھائے جانے والے تعزیہ کو جلا
دیا تھا۔
جن شخصیات کو آگے چل کر ملت کے درد کا درماں بننا ہوتا ہے ان میں سے اکثر
ابتداء ہی میں سخت حالات کی بھٹی میں تپائی جاتی ہیں۔ مرحوم کے ساتھ بھی یہ
ہوا تھا۔ مولانا ابھی آٹھویں جماعت کے طالب علم ہی تھے کہ سقوط حیدرآباد
کے ہنگامے شروع ہوئے۔ فوج نے یلغار کی اور آپ کے خاندان کے کاروبار اور
مکانات لٹ کر تباہ ہوگئے۔ فوج کے بعد ہوم گارڈس نے ظلم ڈھایا۔ یہ کانگریس
کے نوجوانوں کی تنظیم تھی جو گھیراؤ کرکے لوگوں کو پولس کے حوالے کرتی تھی
اور برائے نام کیسیس چلنے کے بعد سزائیں ہوتی تھیں۔ ستمبر 1948ء میں
مولانا بھی گرفتار کرلیے گئے جو اس وقت ہشتم جماعت کے طالب علم تھے۔ رہائی
کے بعد حالات اتنے ابتر تھے کہ حوصلوں کی برقراری اور اہل خانہ کی کفالت ہی
کے لالے پڑ گئے تھے لہٰذا یہ اول ترجیح کا محاذ بن گیا۔ آپ کے بڑے بھائی
عبدالستار صاحب نے بھی حالات کو سنبھالا لیکن کوشش کے باوجود مولانا کی
رسمی تعلیم جاری نہ رہ سکی اور مولانا نے اپنا باقی مطالعہ قرآن و حدیث اور
سیرت بعد کے مرحلوں میں مکمل کیا تھا۔
مولاناؒ رسمی تعلیم جاری نہ رکھ سکے تھے لیکن ادب، تاریخ، اسلامیات اور
شعر و شاعری سے شغف تھا۔ دور طالب علمی ہی میں مسدس حالی، شاہ نامۂ اسلام ،
علامہ راشد الخیری کے اصلاحی ناول، مولانا ابوالکلام آزادع کے مضامین ،
سیرت کمیٹی لاہور کے مضامین نیز غالب اور اقبال کے کلام کو پڑھ لیا تھا۔ اس
کے علاوہ وہ عربی ادب میں صرف ونحو اور مجائن الادب جیسی کتابیں اختیاری
مضمون کے تحت مکمل کی تھیں جس سے بعد میں مطالعہ قرآن و حدیث میں انہیں خوب
مدد ملی۔
جماعت اسلامی ہند کی سرگرمیوں میں آپ کی شرکت 1951ء سے ہونے لگی تھی۔
مولانا مودودیؒ کی معرکۃ الآرا کتاب ’’سیاسی کشمکش‘‘ آپ نے اس وقت پڑھی جب
آپ ششم جماعت کے طالب علم تھے اور کتاب کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے
تھے۔ پھر آگے چل کر جس کتاب نے مولانا کو اقامت دین کی اس عظیم الشان تحریک
کا حرکیاتی کردار بنادیا وہ تھی ’’اساس دین کی تعمیر‘‘ جس کے بارے میں
مولانا نے خود گواہی دی تھی کہ انہوں نے اس کتاب کو تقریباً 25؍مرتبہ پڑھا۔
مولانا عبدالقیومؒ کی جماعت اسلامی سے بڑھتی دلچسپی کو دیکھ کر ان کے
خاندان کے افراد کو تشویش ہوئی۔ آپ کو اس چیز سے باز رکھنے کے لیے نقل
مکانی کرائی گئی۔ کبھی فلور مِل ڈال کر تو کبھی زراعت میں مشغول کرکے جماعت
سے وابستگی کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ کا فیصلہ کہ پیڑ پودوں کی
نگہبانی کے بجائے آپ سے انسانی صلاحیتوں کی آبیاری اور انہیں دین حنیف کی
سربلندی کے لیے تیار کرنے کا کام لینا تھا، آپ نے اپنے آپ کو تحریک اسلامی
کی سرگرمیوں کے لیے یکسو کرلیا۔
تحریک اسلامی سے وابستگی کے وقت آپ کے حالات نہایت سنگین تھے۔ ماحول بھی
سازگار نہ تھا لیکن مولانا نے اس موقع پر جس حوصلہ کا اظہار کیا وہ انہی کے
ان اشعار سے جھلکتا ہے۔
جینے والے موت سے گھبرا گئے
مرنے والے زندگی پہ چھا گئے
اہل ساحل بہہ گئے ساحل کے ساتھ
ڈوبنے والے کنارے پا گئے
ایک اور قطعہ میں مولانا کا انداز ملاحظہ کیجئے۔
فرطِ غم میں مسکرانا آگیا
اپنی بگڑی خود بنانا آگیا
انقلابِ دہر تیرا شکریہ
زہر کو امرت بنانا آگیا
مولانا عبدالقیومؒ 1960ء میں رکن جماعت ہوئے اور رکنیت کے ساتھ اورنگ
آباد کے ناظم ضلع اور کچھ عرصہ بعد کئی اضلاع پر مشتمل علاقے کے ناظم ہوئے۔
یہ ذمہ داری کم و بیش تیس سال آپ نے نبھائی۔ 1990ء تا 1995ء مولانا
جماعت اسلامی ہند مہاراشٹر کے امیر رہے۔ 1995ء تا 2003ء مرکز جماعت میں
معاون قیم جماعت کی ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔ اس عرصہ میں ابتداء میں
ریاست کی شوریٰ کے رکن رہے پھر جماعت کی اعلیٰ ترین باڈی مجلس نمائندگان
اور پھر مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ آخری ایام اور پیرانہ سالی کے باوجود
مولانا کے حوصلے نوجوانوں کی طرح بلند تھے اور مطالعہ، تصنیف و تالیف ،
رفقاء سے ملاقات ، تبادلہ خیال اور رہنمائی کا کام جاری تھا اور جماعت کے
مختلف ٹرسٹ اور باڈیز میں آپ کی خدمات سے استفادہ کیاجاتا تھا۔
علاقے اور ریاست میں مختلف موضوع پر نتیجہ خیز کاوشوں کے علاوہ مولانا نے
مرکزی سطح پر معاون سکریٹری جنرل کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے مختلف خدمات
انجام دیں۔ یہاں بھی آپ کی حرکت و عمل کی بھرپور زندگی اس تصویر کے مصداق
تھی کہ
بہت سے کام ہیں مردان حُر کو جہاں میں
مختلف شعبۂ جات کی ذمہ داریوں کے علاوہ آپ قومی سطح پر فورم فار ڈیموکریسی
اینڈ کمیونل امیٹی (FDCA) کے سکریٹری بھی رہے۔ آپ نے اس فورم کے صدر جسٹس
تارکنڈے اور دیگر عہدہ داران جسٹس راجندر سچر اور مچکند و بے جیسی شخصیات
کے ساتھ مل کر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے کام کیا۔
اس جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ ملت کے تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام، معزز
شخصیات، اعلیٰ تعلیم یافتہ باصلاحیت نوجوان، سیاسی و سماجی کارکنان سے ربط
و تعلق اور رفقائے جماعت کی خبرگیری مولانا کا خاص وصف رہا ہے۔ اسی طرح
دیگر مذاہب اور سماج کے لیڈران سے آپ کے وسیع روابط تھے اور مولانا ان میں
قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ان وسیع روابط اور عوام میں نیچی سطح تک
نفوذ کا استعمال آپ نے نفرتوں کے خاتمے اور باہمی میل و محبت، بھائی چارگی
بڑھانے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا قیام نیز دعوتی روابط کے لیے کیا۔ پھر
ارضی و سماوی آفات ، فرقہ وارانہ کشیدگی فسادات کے موقع پر بے باکانہ
نمائندگی اور ریلیف کے حوالے سے مولانا عبدالقیوم صاحب کا تعمیری اور فعال
رول انشاء اللہ عرصہ تک یاد رکھا جائے گا۔
مولانا نے جماعت کی ذمہ داریوں کے علاوہ ملت کو دینی شناخت، مسلمانوں کے
جان و مال کی حفاظت کے لیے قید و بند کی تکالیف برداشت کیں۔ 1948ء میں
دورِ طالب علمی میں پہلی گرفتاری ہوئی پھر 1965ء میں ہندوپاک جنگ کے موقع
پر DIR کے تحت گرفتار ہوئے اور پانچ ماہ قید رہے پھر 1966ء میں شہر میں
فساد ہوا تو گرفتار کرلیے گئے اور دو ماہ بعد رہا ہوئے۔ اس موقع پر آپ پر
یہ الزام تھا کہ ’’ تم مسلمانوں سے کہتے ہو کہ ان کو مسلمان ہی رہنا
چاہیے‘‘۔ آپ نے تین ججوں پر مشتمل بینچ کے سامنے بے باکانہ حق کا اظہار کیا
کہ ’’ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اپنی آخری سانس تک مسلمان رہنا
چاہیے۔‘‘ پھر ایمرجنسی میں گرفتار ہوئے اور ناسک جیل میں قید کیے گئے۔ اس
موقع پر جیل میں بھی دعوتی کام کیا۔ 1986ء میں بابری مسجد میں فرقہ
پرستوں نے شیلاناس کروایا تو اورنگ آباد میں احتجاج ہوا۔ تیس قائدین کے
ساتھ مرحوم کی بھی گرفتاری عمل میں آئی۔
ان قید و بند اور مصائب کے علاوہ مولانا نے دیگر کئی آزمائشوں اور نجی
مسائل اور معاش کی تنگی کے باوجود راہِ حق پر اس طرح گامزن رہے کہ ان کے
قدم کبھی نہیں ڈگمگائے۔ گھر میںآپ کی اہلیہ مستقل بیمار رہتیں اور کبھی گھر
میں یہ بھی حالات آجاتے تھے کہ اپنے شیرخوار فرزند کے لیے دودھ نہیں خرید
سکتے تو اُسے اس عمر میں روٹی بھگوکر کھلا دیا کرتے۔ پھر مخالفین اور حکومت
کی جانب سے مستقل چیلنجز کا بھی جرأت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے۔ ایسے سخت
حالات میں بھی مولانا نے مستقل کاوش، مسلسل دورے، انتھک جدوجہد اور بے تکان
کام کیا۔ اس عرصہ میں مولانا نے دیہات دیہات کا دورہ کیا۔ اندازہ ہے کہ آپ
ہر ماہ اوسط 18دن دورے پر رہے۔ مولانا کے ماہانہ دوروں کے اوسط کو جوڑا
جائے تو ان کی پچاس سالہ حرکیاتی زندگی میں تقریباً پچیس لاکھ کلو میٹر کے
دورے کیے۔ سفر کی سہولتیں بعد میں میسر آئیں لیکن ابتداء میں کئی علاقوں
میں آپ کے دورے سائیکل پر ہوا کرتے تھے۔ درمیان میں ندی پڑجاتی تو سائیکل
کو ندی میں چلنے والے ٹوکروں میں رکھ کر ندی پار کرتے پھر دوبارہ سائیکل پر
سوار۔ ساتھ میں روٹی بندھی ہوتی جہاں جیسا موقع ہوتا یہ روٹی نکالی جاتی
اور پانی پی کر پھر سفر پر نکل پڑتے۔ کئی موقعوں پر پچاس تا ساٹھ کلو میٹر
پیدل چل لینا مولانا مرحوم کے لیے کوئی دشوار کام نہ تھا۔
غرض مولانا نے راہِ خدا میں وقف عزیمت و قربانیوں سے بھرپور زندگی گزاری۔
وہ سرشاری کے عالم میں جھوم کر عامر عثمانی کے ان اشعار سے اپنے ان ایام کی
یاد تازہ کرتے تھے کہ
خوشا وہ دور بے خودی کہ جستجوئے یار تھی
جو درد میں سُرور تھا تو بے کلی قرار تھی
کسی نے زہر غم دیا تو مسکرا کے پی گئے
تڑپ میں بھی سکون تھا خلش بھی سازگار تھی
مولانا اپنی شخصیت کے ہمہ پہلو ارتقاء اور مومنانہ کردار کی تعمیر کے
سلسلے میں برملا اعتراف کرتے تھے کہ یہ سب کچھ صرف تحریک اسلامی کے مقصد
اور نصب العین سے وابستگی کی دین ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسولؐ کو کامیابی
کی واحد شاہ راہ سمجھتی ہے۔ مولانا اپنی کاوشوں اور جدوجہد کا سہرہ جماعت
اسلامی ہند جیسی اجتماعیت کے سر باندھتے ہیں جو تزکیہ نفس سے لے کر ریاست
کی تشکیل کا واضح پروگرام رکھتی ہے۔ نئی نسل اور نوجوانوں کو اجتماعیت سے
وابستہ ہوجانے کی تلقین کرتے ہوئے وہ اکثر کہتے تھے کہ
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج دریا میں ہے بیرون دریا کچھ نہیں
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی خدمت کو شرفِ قبولیت سے نوازے۔ ان کی کاوشوں
کا بہترین بدلہ دے، انہیں جنت کے باغوں میں داخل فرمائے۔ آمین
محمد عبدالجلیل (ناندیڑ)
No comments:
Post a Comment