Wednesday, 11 June 2014

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں منظور قرار دادیں


جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا 4 روزہ اجلاس آج یہاں اختتام پذیر ہوا جس میں ملک و ملت کو درپیش مسائل پر تفصیل سے غور و خوص ہوا۔ اجلاس کی صدارت امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے فرمائی اور درج ذیل ارکان شوریٰ نے اس میں شرکت فرمائی۔
جناب محمد جعفر (نائب امیر جماعت)، جناب نصرت علی (قیم جماعت)، ڈاکٹر محمد رفعت ، انجینئر محمد سلیم، سید سعادت اللہ حسینی، ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس ، ڈاکٹر حسن رضا، جناب عبدالرقیب، جناب ایس امین الحسن ، مولانا ولی اللہ سعیدی ، جناب ٹی عارف علی، جناب اعجاز احمد اسلم ، جناب وی کے علی ،جناب مجتبیٰ فاروق ، جناب محمد احمد (مدعو خصوصی) جناب شفیع مدنی (مدعو خصوصی)اجلاس نے درج ذیل قرار دادیں منظور کیں۔
1. ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس ۲۰۱۴ء کے انتخابات کے بعد ہونے والی تبدیلی کو ایک اہم سیاسی تبدیلی تصور کرتا ہے۔ اس تبدیلی سے جہاں ایک طبقے کا یہ خیال ہے کہ ملک میں ترقی اور بہتر انتظامیہ کا ایک نیا دور شروع ہوگا، وہیں بعض دوسرے طبقات اور گروہوں کو حکومت کے سرمایہ دارانہ رجحانات اور تہذیبی جارحیت کے عزائم کی وجہ سے تشویش بھی لاحق ہے ۔
مرکزی مجلس شوریٰ حکومت کو یہ یاد دلانا چاہتی ہے کہ اس نے بنیادی طور پر یہ ووٹ ترقی و خوشحالی ،بہتر اور کارگر انتظامیہ اور ملک کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں اور منصفانہ سلوک کے نام پر حاصل کیا ہے ۔ مجلس شوریٰ یہ توقع رکھتی ہے کہ این ڈی اے حکومت اپنے ان وعدوں اور اعلانات پر توجہ مرکوزرکھے گی اور ان اندیشوں کو غلط ثابت کرے گی جو بعض طبقات کو اس کے سلسلے میں لاحق ہیں۔
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ یہ واضح کر دینا چاہتی ہے کہ آزاد مملکت ہند کی تشکیل ایک جمہوری آئین اور شہریوں کے درمیان غیر جانبداری کے اصول کے تحت ہوئی ہے ۔ یہ آئین، مذہب ، قوم، ذات برادری ، علاقے ، زبان اور کلچر کی بنیاد پر کسی طبقے کے ساتھ بے جا امتیاز نہیں کرتا۔ تقسیم وسائل اور عدل و انصاف کے سلسلہ میں مملکت کے تینوں ستون ،مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ بھی امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ یہ اور بات ہے کہ گزشتہ 65؍ برسوں کے دوران بر سر اقتدار طبقات سے اس سلسلہ میں کوتاہیاں سرزدہوتی رہی ہیں۔ شہریوں کے مختلف طبقات کو بہت سی شکایات بھی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی اس ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی قائم ہے، اس لئے امید رکھنی چاہیے کہ موجودہ حکومت بھی اسی نظام کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی اور ایسے اقدامات سے گریز کرے گی جن سے شہریوں کے مابین بدگمانیاں پیدا ہو سکتی ہوں یا کشمکش کا ماحول بن سکتا ہو۔
شوریٰ کا اجلاس ملک کے تمام شہریوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے لئے مل جل کر جدوجہد کریں۔ مذہب، علاقہ اور زبان وغیرہ کی بنیاد پر اپنے درمیان تفریق نہ پیدا ہونے دیں۔ اپنی صفوں میں ایسے مفاد پرست عناصر کو در آنے کا موقع نہ دیں جو جذباتی نعروں سے معاشرہ کی خوشگوار فضا کو مسحوم کر کے اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہوں۔ سماج میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کریں جہاں امن و امان اور قانون کی حکمرانی ہو۔ کسی پر ظلم ہو تو سب مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کے ازالہ کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کریں۔ اخلاق اور جمہوری اقدار کا پاس و لحاظ ہو اور سب کے حقوق کا احترام اور تحفظ ہو۔ ایک جمہوری ملک میں عوام کو بیدار اور متوجہ رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے منتخب کردہ نمائدے اور حکومت اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کرے اور اگر وہ ملک کے دستور اور عوامی مفادات کے خلاف کوئی کام کرے تو جمہوری طریقوں سے اسے روکنے کی بھی کوشش کی جائے۔
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مسلمانانِ ہند کو متوجہ کرتا ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی غیر متوقع یا سنگین کیوں نہ ہوں انہیں سنجیدگی ومتانت، ثابت قدمی اور دانشمندی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔وہ اللہ کے دین کی حامل امت ہیں۔ اس کا اولین تقاضا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹیں، عہد بندگی کو تازہ کریں، اپنا بے لاگ محاسبہ کریں ، حق گوئی کو اپنا شعار بنائیں، ظلم کے آگے نہ جھکیں ، انصاف کے علم بردار بنیں اور جذباتی و انتہا پسند رویوں نیز مایوسی و شکست خوردگی سے بچیں ۔ اس کے لئے امت کو خود اعتمادی اور عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس مسلمانوں ، ان کی تنظیموں اور رہنماؤں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اسلامی بنیادوں پر اپنے اندر اتحاد و اتفاق پیدا کریں، اخوت اسلامی کو فروغ دیں، انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے والی ہر کوشش سے دور رہیں ، مسلمانوں کے متحدہ فورمس اور اجتماعی اداروں کو موثر بنائیں اور کوشش کریں کہ متحد ہو کر ملک کے حالات پر اثر انداز ہو سکیں۔
مجلس شوریٰ کے نزدیک اس وقت ایک اہم کام یہ ہے کہ امت ملک کے سماجی اور سیاسی حالات پر مثبت اثرات ڈالنے کے لئے مربوط کوششوں کا آغاز کرے۔ مسلمانوں کو اپنے تحفظ اور دفاع تک محدود رہنے کے بجائے پورے ملک اور تمام باشندگان ملک کی فلاح و بہبود کے لئے فکر مند اور سرگرم عمل ہونا چاہیے اور اپنے عملی رویوں سے اسلام کی شہادت دینی چاہیے۔
2 . عالم اسلام کی صورت حال :
جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس عالمِ اسلام کے بعض ممالک میں جاری خون ریزی اور عالمی طاقتوں اوربعض مسلم حکومتوں کی ریشہ دوانیوں پر سخت تشویش اور دکھ کا اظہار کرتا ہے۔
مصر میں جس طرح ایک منتخب جمہوری حکومت کو برطرف کیا گیا ، ہزاروں لوگوں کو قید کیا گیا اور جس طرح وہاں ایک سال سے قتل و خون کا بازار گرم ہے، وہ بلا شبہ مصر کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ اب نام نہاد عدالتوں کے ذریعہ چند منٹوں کی کارروائی کے بعد، سیکڑوں لوگوں کو پھانسی کی سزا ئیں سنائی جا رہی ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے ظالم حکمرانوں کو عدل و انصاف اور انسانی جان کے احترام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔
مصر کے صدارتی انتخاب کے فریب کو جس طرح عوام نے مسترد کیا وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ موجودہ حکمراں اور ان کی پالیسیاں عوام کو قابل قبول نہیں ہیں۔ اس کے باوجود عالمی طاقتوں کی خاموشی اور بے تعلقی شدید افسوسناک ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک بعض ان مسلم ممالک کا رویہ ہے جو برادر کشی اور اسلام و اسلامی تحریکات کی بیخ کنی کے عمل میں پوری طرح شریک ہیں۔
انتخابا ت کا یہی ڈرامہ شام میں بھی رچا جا رہا ہے۔ شام کا ڈکٹیٹر ڈھائی لاکھ شہریوں کی دردناک ہلاکت ، پچاس لاکھ لوگوں کی دربدری اور دسیوں علاقوں کو پوری طرح تباہ و تاراج کرنے کے بعد اب اپنے مظلوم عوام سے ووٹ مانگنے جا رہا ہے۔ شام کے معاملہ میں بھی عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی اداروں نے جس طرح بے حسی اور مجرمانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جنیوا۔۲ مذاکرات کی ناکامی کے بعد شام کے صدر کو حکومت پر قائم رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ اجلاس کا مطالبہ ہے کہ شام کا حکمران فوری حکومت سے دستبردار ہو جائے اور اس کے لئے بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ اپنا رول ادا کرے۔نیز شام کے مظلومین کو انصا ف دلانے اور ان کی باز آباد کاری کے لئے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔
اجلاس فلسطینی کاز کی حامی جماعتوں الفتح اور حماس کے حالیہ اتحاد اور متحدہ حکومت کے قیام پر خوشی و مسرت کا اظہار کرتا ہے اور اس حکومت کا استقبال کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہے۔ اجلاس کو امید ہے کہ اس اتحاد کو دوام حاصل ہوگا اور فلسطین کی تنظیمیں اسی اتحاد و اتفاق کی اسپرٹ کے ساتھ اس کے دیرینہ مسائل کے حل کے لئے کوشش کریں گی۔ اجلاس دنیا کے تمام ممالک سے اور خود اپنے ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس نو تشکیل حکومت اور فلسطین کو ایک آزادریاست کے طور پر تسلیم کرے۔ اجلاس عرب لیگ اور عرب ممالک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے سابقہ وعدوں کے مطابق فلسطین کے مالی تعاون کے لئے آگے بڑھیں۔
بنگلہ دیش میں اپوزیشن بالخصوص جماعت اسلامی کے رہنماؤں پر جس طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اجلاس اس کی پر زورمذمت کرتا ہے ۔ اجلاس کو امید ہے کہ عالمی عدالت میں بنگلہ دیش کے مظلومین کو انصاف ملے گا۔ بلدیاتی انتخابات میں بی این پی اور جماعت اسلامی کے اتحاد کی عوام نے جس طرح تائید کی ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بنگلہ دیش کے ان اقدامات کو عوامی تائید حاصل نہیں ہے۔ اجلاس حکومت بنگلہ دیش سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس ظالمانہ رویہ سے باز آئے اور بین الاقوامی اداروں اوراپنے ملک سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اس معاملے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔
3 . خواتین پر بڑھتے مظالم:
مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ اجلاس گزشتہ دنوں یوپی کے شہر بدایوں میں دو بچیوں کی آبروریزی اور بہیمانہ قتل کی پروزور مذمت کرتا ہے اور حکومت اتر پردیش سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ مجرمین کو کیفرکردار تک پہنچائے۔
مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ تمام تر قانون سازی، حکومتی اقدامات اور یقین دہانیوں کے باوجود خواتین کی عصمت دری اور اغوا کے واقعات اوران پر نوع بہ نوع مظالم کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ ان معاملات میں قانون کے محافظین بھی ملوث پائے گئے ہیں۔
مرکزی مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ محض قانون سازی اور وقتی اقدامات خواتین پر ہونے والے وحشیانہ مظالم کا سد باب نہیں کرسکتے، جب تک کہ ان تمام اسباب و محرکات کو سختی سے نہ کچلا جائے جو ان حوادث کے لیے ذمہ دار ہیں۔
خواتین پر ہونے والے جنسی مظالم کے لیے بڑھتی ہوئی جنسی بے راہ روی ، فحاشی و عریانی ، مغربی تہذیب کی نقالی ،شراب و منشیات، لیوا ن ریلشن شپ اورایسی قانون سازی ہے جو آزادنہ جنسی تعلق کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں قحبہ گری کو قانونی جواز حاصل ہے جو ملک کی ایک بڑی انڈسٹری بن گئی ہے۔مختلف علاقوں سے غریب بچیوں کا اغوا کرکے جبراً انھیں اس جہنم میں جھونک دیا جاتا ہے۔
مجلس شوریٰ کا احساس ہے کہ جنسی بے راہ روی کے جرائم کو پروان چڑھانے میں پرنٹ ، الیکٹرانک میڈیا اور فلموں کے بعد انٹرنیٹ، میڈیا اور فحش سائٹس کا بہت بڑا رول ہے۔ مجلس شوریٰ حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ فی الفور جرائم کے ان تمام سوتوں اور سوراخوں کو بند کرے۔ میڈیا میں فحاشی و عریانی کی روک تھام کے لئے سخت قانون سازی کرے اور ہندوستان میں تمام پورن سائٹس اور فحش فلموں اور پروگراموں پر پابندی عائد کرے۔ مجلس شوریٰ خواتین کی تنظیموں اور سول سوسائٹی موومنٹ سے بھی اپیل کرتی ہے کہ محض احتجاجات اور سخت سزاؤں کا مطالبہ کافی نہیں ہے بلکہ اسے مذکورہ بالا تمام اقدامات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔

No comments:

Post a Comment